اشرف صحرائی کی شہادت

299

قائد تحریک آزادی کشمیر سید علی گیلانی کے معتمد ساتھی اور جانشین اور تحریک حریت جموں کشمیر کے چیئرمین اشرف صحرائی بھارتی جیل میں وفات پاگئے۔ تحریک آزادی کشمیر کے معمر رہنما بھارت کے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جموں کی جیل میں طویل عرصے سے قید تھے۔ تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید گیلانی نے جیل میں قید بیمار رہنما کی پراسرار موت کو حفاظتی قتل قرار دیا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے اشرف صحرائی کی جیل میں پراسرار موت پر احتجاج کے لیے مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کی کال دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اشرف صحرائی کی شہادت کو بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔ اشرف صحرائی کی بھارتی جیل میں موت نے یہ پیغام دیا ہے کہ کشمیری عوام اور ان کی قیادت مشترکہ طور پر کیسی ایمان افروز قربانیاں دے رہی ہے، بدترین حالات کے باوجود اہل کشمیر اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے اور اپنی جدوجہد ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ قرار دیا جاتا ہے لیکن سب سے بڑی جمہوریہ نے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے واقعات مسلسل رپورٹ ہورہے ہیں، لیکن دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی کے باوجود بھارت کو کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ قربانیوں کی داستانوں میں اشرف صحرائی اپنے خاندان کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ 19 مئی 2020 کو ان کے بیٹے جنید اشرف صحرائی کو بھارتی فوج نے شہید کردیا تھا۔ جس قوم کو اشرف صحرائی جیسی قیادت و رہنمائی میسر ہو وہ بدترین حالات میں بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کرتی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تیسری نسل آچکی ہے جو بھارت کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود اپنی جدوجہد کو استقامت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کشمیری عوام قربانیوں کی ایمان افروز داستان رقم کررہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمراں کشمیر کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ اب تو ایسے اشارے دیے جارہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کا سودا بھی کرلیا گیا ہے۔ ان شبہات کو اشرف صحرائی کے شہادت کے موقع پر پاکستان میں ردعمل سے تقویت ملتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے آپ کو کشمیر کا سفیر قرار دیتے ہیں، لیکن نہ ان کی جانب سے، نہ صدر مملکت کی جانب سے، نہ وزیر خارجہ کی سطح پر کوئی بیان جاری کیا گیا۔ صرف دفتر خارجہ کے ترجمان نے رسمی بیان جاری کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی جیل میں تحریک حریت کشمیر کے چیئرمین کی موت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بھارت کی جانب سے کشمیری رہنمائوں پر جھوٹے مقدمات اقوام متحدہ کے چارٹر، قراردادوں اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حکومتی سطح پر اتنا ردعمل کافی نہیں ہے۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اہل پاکستان اور ان کے حکمران صرف تماشائی ہیں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھارتی فوج کے گھیرائو میں ہونے کے باوجود پاکستانی پرچم لہرا کر آزادی کے نعرے لگاتے ہیں اور ہم پاکستانی ان کے حق میں آواز بلند کرنے کا فرض ادا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے گزشتہ سات دہائیوں میں جو قربانیاں دی ہیں، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پاکستانی حکمران کشمیریوں کی مدد کرنے اور بھارتی حکومت کی کشمیر کے خلاف سازشوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، اس لیے ہم اقوام متحدہ، عالمی برادری کی شکایت کیسے کریں کہ وہ کشمیر پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کررہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی خاموشی سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اسلام آباد اور دہلی کشمیر کے بارے میں خفیہ معاہدہ کرچکے ہیں۔ سقوط ڈھاکا کی طرح سقوط سری نگر کے لیے بھی تیار ہوگئے ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جب تک کشمیر اشرف صحرائی جیسے شہید جنم دیتا رہا تحریک آزادی جاری رہے گی۔