سمندر پار پاکستانیوں کو شہریت دینے کے نتائج سنگین ہوں گے

632

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے اعلان کیا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو شہریت دینے اور انہیں ووٹ کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اس فیصلہ کے تمام مضمرات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ بظاہر یہ فیصلہ جذباتی نظر آتا ہے جس کے لیے یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ سمندر پار پاکستانی بڑی رقوم پاکستان بھجواتے ہیں اس لیے ان کا شہریت کا حق بنتا ہے۔ حقائق کے پیش نظر یہ فیصلہ سنگین ہے جس سے بیرون ملک پاکستانیوں کے مفادات کو بری طرح زک پہنچے گی۔
اْس زمانے میں جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو برطانیہ میں پیپلز پارٹی کی شاخ منظم کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو وہ سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان کی شہریت دینے کے زبردست حامی تھے۔ ان سے اس مسئلے پر طویل بحث ہوئی تھی۔ ان کے اس موقف کی حمایت میں ان کا یہ استدلال تھا کہ اول برطانیہ میں آباد کشمیریوں کی پاکستان سے یک جہتی مضبوط بنائی جاسکے گی اور دوم پاکستانی چونکہ اپنے عزیز و اقارب کی مالی امداد کرتے ہیں، اس بنا پر پیپلز پارٹی کے حق میں ان کی رائے زیادہ وزنی ثابت ہوگی۔ میرا استدلال تھا کہ جہاں تک کشمیریوں کی پاکستان سے یک جہتی کا تعلق ہے وہ نا قابل تسخیر ہے البتہ برطانیہ میں پاکستان کی سیاسی جماعت کے قیام سے یہاں پاکستانیوں کے اتحاد کو بہت بری طرح سے زک پہنچے گی۔ اْس وقت تک برطانیہ میں پاکستانیوں کی صرف ایک تنظیم تھی، پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن جو پاکستانیوں کے مسائل کے حل میں بڑی حد تک فعال اور کامیاب تھی۔ اس تنظیم کے مقامی کونسلوں سے قریبی روابط تھے اور جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا تھا یہ روابط ان کے حل میں مددگار ثابت ہوتے۔ میں نے بھٹو صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ برطانیہ میں پیپلز پارٹی کی شاخ کے قیام کے بعد پاکستان کی دوسری جماعتوں کو بھی یہاں اپنی شاخیں منظم کرنے کی شہہ ملے گی۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹ جائیں گے اور پاکستان کی سیاست میں الجھ جائیں گے اور برطانیہ کے پاکستانی اس ملک کی سیاست سے بچھڑ جائیں گے جب کہ ان کے اور ان کی آئندہ نسلوں کی تعلیم، روزگار اور مکانات کے اہم مسائل کے لیے انہیں سیاسی منجھدار میں آنا ضروری ہے۔ بھٹو صاحب اپنے دلائل کے اس قدر قائل تھے کہ انہوں نے میرے خدشات کو اہمیت نہیں دی۔ برطانیہ میں پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد پاکستان کی دوسری جماعتوں نے بھی یہاں اپنی شاخیں قائم کردیں جس کی وجہ سے پاکستانیوں میں باہمی رقابتیں بڑھیں اور پاکستانیوں نے اس ملک کی سیاست کے بجائے پاکستان کی سیاست میں الجھنا شروع کردیا۔
برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی یہی گنے چنے اراکین پارلیمنٹ تھے البتہ پچھلے دس برس میں جب پاکستانیوں نے سیاسی منجھدھار میں شرکت اختیار کی تو حالات بدلے اور اب پارلیمنٹ میں پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کی تعدا دس تک پہنچی ہے لیکن اب بھی دونوں سیاسی جماعتوں میں پاکستانیوںکا اتنا اثرو رسوخ نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ہندوستانیوں نے اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں برطانیہ میں قائم کرنے سے یکسر اجتناب کیا اور ہندوستان کی سیاست میں الجھنے کے بجائے تمام تر توجہ انہوں نے برطانیہ کی سیاسی جماعتوں اور یہاں کی سیاست کی طرف دی۔ نتیجہ یہ کہ برطانیہ میں آباد پندرہ لاکھ کے قریب ہندوستانیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی پندرہ ہے لیکن ہندوستانیوں کو اس پر فخر ہے کہ انہوں نے برطانیہ کی سیاسی منجھدھار میں آکر نمایاں حیثیت حاصل کی ہے۔ بورس جانسن کی پہلی کابینہ میں پاکستانی ساجد جاوید پہلے وزیر داخلہ اور بعد میں وزیر خزانہ تھے لیکن بورس جانسن کے اعلیٰ مشیر ڈومنیک کمنگس کے مشورہ پر انہیں ان عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ موجودہ کابینہ میں تین اہم عہدے ہندوستانی نژاد اراکین کو دیے گئے۔ وزارت داخلہ پر پریٹی پٹیل فائز کی گئی ہیں وزیر خزانہ رشی سوناک مقرر کیے گئے ہیں اور وزیر تجارت الوک شرما کو دی گئی ہے۔ اب بورس جانسن کی کابینہ پر ہندوستانی نژاد وزیروں کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے۔ بلا شبہ، متعدد پاکستانیوں نے پاکستان کی سیاست میں الجھے بغیر برطانیہ کی سیاسی منجھدھار میں شامل ہو کر اہم پوزیشن حاصل کی ہیں جن میں لندن کے میر صادق خان نمایاں ہیں۔ اور رکن پارلیمنٹ رحمان چشتی، نصرت غنی اور یاسمین قریشی قابل ذکر ہیں۔ لیکن پھر بھی برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد کے تناسب سے سیاست اور پارلیمنٹ میں پاکستانیوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔
ماضی کے ان تجربات کے باوجود اب یہ شور مچ رہا ہے کہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کو پاکستان کے عام انتخابات میں ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے۔ اس مطالبے کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ سمندر پار آباد پاکستانی بڑی تعداد میں رقوم پاکستان بھجواتے ہیں اس کا انہیں صلہ ملنا چاہیے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ یہ پاکستان اپنے عزیز رشتہ داروں کی مدد کے لیے یہ رقوم بھجواتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان کو غیر ملکی زر مبادلہ میں مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ کوئی وزنی دلیل نہیں ہے کہ چونکہ سمندر پار آباد افراد پاکستان کو رقوم بھجواتے ہیں اس لیے انہیں پاکستان میں ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ برطانیہ اور امریکا کے مقابلہ میں مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانی بہت زیادہ رقوم بھجواتے ہیں جنہیں وہاں نہ تو شہریت کے حقوق حاصل ہیں اور نہ دوسرے سیاسی حقوق۔ جہاں تک دوہری شہریت کا تعلق ہے یہ دلیل وزنی ہے کہ ایک غیر ملک کی شہریت کے لیے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کے ساتھ مکمل وفاداری مشکوک رہ جاتی ہے اور دونوں ملکوں کے مفادات کی کشمکش میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پھر بہت سے عہدے ایسے ہیں جن پر دوہری شہریت کے حامل شخص کے تقرر کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اس لیے ان الجھنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دوہری شہریت کی منظوری کے بارے میں عجلت میں فیصلہ نہ کیا جائے اور اس سلسلے میں جذباتیت سے کام نہ لیا جائے۔
ہندوستان نے دوہری شہریت کے ان مسائل اور الجھنوں کے پیش نظر، اپنے شہریوں کو دوہری شہریت کا حق نہیں دیا ہے۔ اور جو ہندوستانی باہر کے ملکوں کی شہریت حاصل کرتا ہے تو اس کی ہندوستانی شہریت منسوخ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ سمندر پار ملکوں میں رہنے والی ہندوستانی، پاکستانیوں سے کہیں زیادہ رقوم ہندوستان بھجواتے ہیں۔ اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا کہ سمندر پار ممالک میں آباد پاکستانی بنیادی طور پر اپنے اور اپنی نئی نسل کے مستقبل روشن بنانے کے لیے اپنے وطن کو خیرباد کر کے سمندر پار آباد ہوئے ہیں۔ یہ ان کا اپنا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ وہ اس حق کے مستحق ہیں کہ وہ نئے ملکوں میں اپنا مستقبل سنواریں جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ملکوں کی سیاست میں حصہ لیں یک سوئی سے بلا کسی الجھن کے۔ دوہری شہریت سے اس معاملہ میں بہت پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ سمندر پار پاکستانی، پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی سیاست میں اس بری طرح سے الجھ جائیں گے کہ وہ اپنے اور اپنی نئی نسل کے مسائیل کی طرف بالکل توجہ نہ دے سکیں گے یہ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا کاش کہ اس مسئلے پر جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی کی نظر سے غور کیا جائے۔