!!!مسترد شدہ، مستند شدہ

690

 

کراچی کے علاقے این اے 249 کے ضمنی انتخاب نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے انتخابی نظام کے فرسودہ اور ناکام ترین ہونے کا ثبوت دے دیا۔ اس ضمنی انتخاب کے نتائج انتخابی نظام پر ایسا تبصرہ ہیں کہ اس کے بعد اس فرسودہ نظام کو مزید جاری رکھنا ظلم ہوگا۔ این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں امیدوار تو بہت سارے تھے جو بجائے خود ایک خرابی ہے لیکن فی الحال اس پر بات نہیں کرتے بلکہ بات اس پر کرنی ہے کہ انتخاب جیتنے والے اور ہارنے والوں کے ووٹ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس انتخاب سے جو چیز برآمد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جیتنے والا امیدوار اپنے خلاف تین گناہ زیادہ ووٹ پڑنے کے باوجود علاقے کا رکن قومی اسمبلی بن گیا ہے۔ کامیاب امیدوار پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل ہیں انہیں 16,151 ووٹ ملے ہیں جب کہ ان کے مخالف امیدواروں نے مجموعی طور پر 52 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ تو صرف ان کے مخالف صرف پانچ بڑے امیدواروں کے اعداد و شمار ہیں ورنہ 15 ووٹ والا امیدوار بھی میدان میں تھا۔ یہ اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ علاقے کے 52 ہزار سے زیادہ ووٹروں نے رکن قومی اسمبلی بننے والے شخص پر اعتماد نہیں کیا۔ یہ بھی نہیں کہ وہ کسی اَن جانی پارٹی کے تھے بلکہ وہ خود بھی معروف اور ان کی پارٹی بھی معروف ہے۔ لہٰذا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ لوگوں نے انہیں پہچانا نہیں تھا۔ بلکہ یہ خرابی نظام کی ہے۔ لوگوں کے سامنے درست انتخاب رکھا ہی نہیں گیا تھا۔ اب شخصیت، پیسے، الیکشن کمیشن سے تعلقات اور مہربانوں کی مہربانی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے سامنے منشور، پارٹی کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبے نہیں رکھے جاتے ہیں۔ دنیا میں بہترین نمائندگی متناسب نمائندگی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس نظام میں پارٹی اور منشور کی اہمیت ہوتی ہے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ عوام کے ووٹ ضائع نہیں ہوتے ہر پارٹی کے ووٹ شمار کیے جاتے ہیں اور اس تناسب سے اس کو نشستیں الاٹ ہوتی ہیں اور انتخابات پر جاگیردار، زردار اور امیر ’’ترین‘‘ بھی اثر انداز نہیں ہوسکتے لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں نظام ہے یا جو لوگ مل کر میوزیکل چیئر کھیل رہے ہیں ان کا مفاد اس میں ہے کہ پیسوں والا نظام چلتا رہے۔
این اے 249 کے نتائج ملاحظہ فرمائیں کامیاب امیدوار قادر خان مندوخیل 16,156 ووٹ، مفتاح اسماعیل 15,473 ووٹ۔ اگر ان دونوں کے ووٹ ملائیں تو دونوں ملا کر 31 ہزار 629 ووٹ بنتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف چار امیدواروں ٹی ایل پی کے مفتی نذیر 11,125 ووٹ، مصطفی کمال پی ایس پی 9,227 ووٹ، پی ٹی آئی کے امجد آفریدی 8922 اور ایم کیو ایم کے حافظ مرسلین کے 7511 ووٹ جمع کریں تو بھی اول دوم آنے والوں سے زیادہ ان کے خلاف ووٹ ڈالے گئے ہیں، جو مجموعی طور پر 36 ہزار 785 ووٹ بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اول و دوم آنے والے بھی علاقے کے عوام کے نمائندے نہیں اور اول آنے والے کے خلاف تو 52258 ووٹ ڈالے گئے ہیں تو پھر وہ علاقے کا نمائندہ کیسے ہوگیا۔ بات بات پر مغربی ممالک کی مثالیں دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مغرب کے کتنے ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ آئیے ہم بتاتے ہیں اور بتاتے کیا ہیں صرف گوگل کھولیں اور دیکھیں دنیا کے 94 ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام کامیابی اور خاموشی سے چل رہا ہے۔ کامیابی کی وجہ سے ہی خاموشی ہے۔ کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے 85 ممالک پارٹی کا نظام چل رہا ہے۔ حیرت ہے بات بات پر یورپ اور امریکا کی مثالیں دینے والے ہمارے حکمران ان 94 ممالک کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے یہ ممالک افریقا کے نہیں ہیں اور تیسری چوتھی دنیا کے غریب ممالک نہیں ہیں بلکہ ان میں فن لینڈ، لٹویا، سویڈن، اسرائیل، جنوبی افریقا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس نظام کے مختلف طریقوں کو ان ممالک میں اختیار کیا جاتا ہے اور وہاں نہایت پرسکون طریقے سے الیکشن ہوتے ہیں اور حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک میں ہر ادارہ اپنا کام خود اپنے دائرے میں رہ کر کرتا ہے۔ دوسرے کے معاملات سدھارنے میں نہیں لگا رہتا۔
پاکستانی وزیراعظم انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کرانے کی بات کررہے ہیں۔ اسے واحد حل قرار دے رہے ہیں۔ اب الیکشن ایکٹ میں 49 تبدیلیوں کی بات کی گئی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے ترمیم لانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ مخالف ہے، اپنے گروپ میں ٹوٹ پھوٹ ہے، ایسے میں آئینی ترمیم منظور کیسے کرائیں، اگر پی پی سے معاملات سیٹ بھی ہوگئے ہیں تو بھی یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ 49 تبدیلیوں کے اعلان کے ساتھ ساتھ کراچی کے کچھ انتخابی حلقے ختم کرنے کی بات بھی کردی گئی ہے۔ گویا ایسے حلقے ضم کیے جائیں گے جن سے مطلوبہ نتائج ملنے کی توقع نہیں۔ اب این اے 249 کو ہی بنیاد بنالیا جائے تو بھی بہت سی باتیں واضح ہیں۔ ویسے تو تمام عام انتخابات کے نتائج اس طرح ہوتے ہیں کہ اقلیت والا اکثریت کا نمائندہ قرار پاتا ہے پھر اسمبلی میں بیٹھ کر دھونس جماتا ہے سب اس کو عوام کا منتخب نمائندہ قرار دیتے ہیں حالاں کہ وہ تو مسترد شدہ نمائندہ ہوتا ہے۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو مشورے کے لیے بلائے اور سب سے مشورہ کرکے انتخابات کے پورے نظام کی اوور ہالنگ کی جائے۔ تب ہی کوئی بہتری آسکے گی۔