بائیسواں سبق: وعدہ

379

مطالعہ قرآن: ’’اور عہد کو پورا کرو، کہ عہد کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا‘‘۔ (بنی اسرائیل: 43) دین اسلام کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت وعدے کی پابندی ہے، ایفائے عہد ایک اہم فریضہ ہے، اگر کوئی مسلمان ایفائے عہد کی صفت سے خالی ہو تو انسانیت کے شرف سے عاری سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کو سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ وہ اخلاق، معاشرت، معیشت اور معاہدات و معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جس کی پابندی انسان پر شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ معاہدات کی جتنی قسمیں ہیں سب اس لفظ کے حکم میں داخل ہیں اور اس کی ابتدائی تین اقسام ہیں۔ پہلا: وہ معاہدہ جو انسان کا ربّ العالمین کے ساتھ ہے۔ مثلاً ایمان، اطاعت کا عہد اور حلال و حرام کی پابندی۔ دوسرا: وہ معاہدہ جو انسان کا اپنے نفس کے ساتھ ہے جیسے کسی چیز کی نذر مانگنا یا قسم کھا کر کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کرلینا۔ تیسرا: وہ معاہدہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ۔ اس تیسری قسم میں وہ تمام معاہدات شامل ہیں جو دو شخصوں، دو جماعتوں یا دو حکومتوںکے درمیان ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی معاہدات باہمی سمجھوتے، جماعتوںکے باہمی عہد و میثاق اور دو انسانوںکے درمیان ہر طرح کے معاملات نکاح، تجارت، شرکت، ہبہ وغیرہ۔ ان تمام معاہدات میںجو جائز شرطیں باہمی رضامندی سے طے ہوجائیں اس آیت کی رو سے ان کی پابندی ہر فریق پر لازم ہے کیونکہ ناجائز شرط لگانا یا اسے قبول کرنا جائز نہیں۔
وعدہ خلافی کی صورتیں: ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی ایک ناسور بن چکا ہے اور عام افراد کیا اچھے خاصے دین دار حضرات اس مرض کا شکار ہیں اور وعدہ خلافی کے گناہ ہونے کا تصور ذہن سے معدوم ہوگیا ہے۔ وعدہ صرف زبانی نہیں ہوتا بلکہ عملی وعدہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً حکومت کی جانب سے اجتماعی نظام کو درست رکھنے کے لیے جو قوانین بنائے جاتے ہیں تو ملک کے ہر شہری کے لیے اس پر عمل کرنا لازمی ہے اور اس کیخلاف کرنا گناہ ہے۔ جب تک اس ملک کا قانون اس کو کسی گناہ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ ادارہ یا کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے جو اوقات مقرر ہوتے ہیں یہ بھی ایک قسم کا عہد و پیماں ہے۔ لہٰذا ان اوقات کی پابندی نہ کرنا اور پوری تنخواہ وصول کرنا وعدہ خلافی کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں عوام تو کیا خواص بھی مبتلا ہیں اور اسے گناہ نہیں بلکہ پروٹوکول سمجھا جانے لگا ہے۔ اللہ ہم سب کو وعدہ ایفا کرنے کی توفیق عطا فرماتے۔ (آمین)
مطالعہ حدیث: سیدنا عبداللہ بن ابی الحمساؓ فرماتے ہیں کہ نزول وحی اور اعلان نبوت سے قبل میں نے آپ ؐ سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا، کچھ رقم میں نے ادا کردی اور کچھ باقی رہ گئی اور میں نے وعدہ کیا کہ ابھی آکر میں باقی رقم ادا کردوںگا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں رہا، تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا آپؐ کو اسی جگہ منتظر پایا مگر اس سے بھی زیادہ عجیب یہ کہ میری اس وعدہ خلافی سے نبی کریم ؐ کے ماتھے پر ایک ذرا بل نہ آیا بس صرف اتنا فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ (ابودائود)
ہر قل کے دربار میں جب ابو سفیان سے آپؐ کے بارے میں پوچھا گیا کہ: ’’کیا وہ عہد کو پورا کرتے ہیں؟‘‘ تو ابو سفیان نے آپؐ کے جانی دشمن ہونے کے باوجود اس بات کا اقرار کیا کہ ’’ہاں وہ عہد پورا کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جس میں ایفائے عہد نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔ (مشکوٰۃ)
سیرت صحابہ: غزوہ بدر حق و باطل کا پہلا معرکہ جس میں مسلمان ساز و سامان، وسائل اور عددی قوت غرض ہر لحاظ سے بے سروسامانی کی حالت میں تھے اور دوسری طرف کفار ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ایک لشکر جرار کے ساتھ اسلام کی شمع کو گل کرنے کے لیے صف بستہ ہیں۔ ان حالات میں سیدنا حذیفہ بن یمان اپنے والد یمان کے ساتھ مدینہ آرہے ہیں، راستے میں ابوجہل نے ان کو پکڑ لیا اور پوچھا کہاں جارہے ہو۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا۔ نبیؐ کی خدمت میں جارہے ہیں۔ تو ابو جہل نے کہا پھر تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے کیونکہ تم مدینہ جاکر ہمارے خلاف جنگ میں حصہ لوگے۔ اور پھر ان سے وعدہ لیا کہ وعدہ کرو کہ وہاں جاکر ملاقات کرو گے مگر جنگ میں حصہ نہیں لو گے۔ جب یہ دونوں مدینہ پہنچے تو اللہ کے رسول غروہ بدر کے لیے نکل چکے تھے۔ راستے میں ملاقات ہوئی اور انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’وعدہ تو انہوں نے ہماری گردن پہ تلوار رکھ کر ہم سے لیا تھا، آپؐ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بدر میں شریک ہوں‘‘۔ لیکن آپؐ نے فرایا۔ نہیں، تم وعدہ کرکے آئے ہو اور زبان دے کر آئے ہو اور اس شرط پر تمہیں رہا کیا گیا ہے کہ تم جنگ میں حصہ نہیں لوگے۔ لہٰذا اس عہد کی پاس داری ضروری ہے اور ان دونوں حضرات کو جنگ میںشرکت کی اجازت نہ دی۔ انسان کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب حالات خراب ہوں، جان جانے کا خطرہ موجود ہو، حالات و واقعات بالکل الٹ نظر آرہے ہوں تو ایسے حالات اکثر لوگ اپنی طبیعت و عادت کو چھوڑ کر ایسے رویے اختیار کرلیتے ہیں جن سے انسانیت شرما جائے مگر قربان جائیں سرور کائنات ؐ کی ذات اقدس پر کہ ایسے سخت، ناموافق حالات میں بھی اپنے اصول سے دست بردار نہیں ہوئے اور عہد کی پاس داری فرمائی۔