عالمی صف بندی اور مسلم ممالک

448

عالمی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات مسلم ملکوں پر پڑ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں میں امریکا نے ظالمانہ طور پر ناجائز حملہ کرکے دو مسلمان ملکوں افغانستان اور عراق کو برباد کردیا۔ اس کے اثرات پوری مسلم دنیا پر پڑے۔ نائن الیون کے پراسرار واقعے کو 20 برس پورے ہونے کو آئے ہیں۔ اس عرصے میں امریکی قیادت تبدیل ہوتی رہی۔ لیکن سابق امریکی صدر بش جونیر کی جانب سے شروع کی گئی وار آن ٹیرر جاری رہی۔ افغانستان پر حملے کا سبب امریکا نے یہ بتایا کہ القاعدہ کے دہشت گردوں نے افغانستان سے بیٹھ کر امریکا پر حملہ کردیا ہے لیکن اس وقت کی افغان حکومت کے مطالبے پر امریکی حکومت نے کوئی شواہد پیش نہیں کیے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ نائن الیون کی ذمے داری افغانستان میں مقیم کسی گروہ کے اوپر عاید ہوتی ہے۔ بش جونیر نے ایک چھوٹی سی تنظیم کے خلاف جس عالمی جنگ کا آغاز کیا وہ امریکا کی تاریخ کی مہنگی ترین اور طویل ترین جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ آج امریکا کو رسوا ہو کر افغانستان سے فوجی انخلا پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو دنیا کے سب سے کمزور اور پسماندہ ملک افغانستان کے مجاہدین سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی طرح افغانستان کے حملے کے کچھ برسوں بعد ہی عراق پر حملہ آور ہوگیا اور الزام یہ عاید کیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ یہ الزام جھوٹ ثابت ہوگیا، لیکن اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ کی سیاست و معیشت کو تباہ کردیا۔ افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے نے عالمی حالات کو تبدیل کیا ہے، سب سے بڑی تبدیلی تو یہ آئی ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد قائم ہونے والا یک قطبی عالمی نظام بھی ختم ہوگیا۔ نئی سیاسی صف بندی نے طاقت کے نئے مراکز پیدا کردیے ہیں جن میں چین کی ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی اور سیاسی طاقت ہے، اس تبدیلی نے عالمی سطح پر نئی سرد جنگ شروع کردی ہے۔ اسی کے ساتھ امریکا افغانستان سے پسپائی پر تو مجبور ہوگیا ہے لیکن اس نے اپنے آلہ کاروں کی مدد سے افغانستان میں خانہ جنگی کی سازشیں بھی شروع کردی ہیں۔ افغانستان اور عراق کے قبضے نے سب سے زیادہ منفی اثر مسلم ممالک کے اوپر ڈالا۔ چوں کہ کوئی بھی مسلمان ملک اور اس کی قیادت امریکا کے اسلام دشمن اور مسلمان دشمن عزائم کی مزاحمت کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے مسلم اور عرب ممالک کے تمام ادارے بشمول اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ مفلوج اور تحلیل ہوگئے۔ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کے تمام اہم ممالک عالمی سیاست میں جغرافیائی اور تزویراتی حیثیت سے اہم خطوں میں شامل ہیں، اس لیے عالمی سیاست ہمیں تبدیلی کا منفی یا مثبت اثر تقریباً ہر مسلم ملک کے اوپر پڑتا ہے۔ عالمی سیاسی کش مکش کی بنیاد صرف سیاسی اور اقتصادی بالادستی نہیں ہے بلکہ عقیدے اور نظریے کی کش مکش ہے۔ ایک طرف ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر چھیڑی گئی جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا گیا دوسری طرف اسلام اور اسلامی عہدے اور تہذیب کے خلاف ہر سطح پر جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ طالبان سے معاہدہ ہوگیا ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کے نام پر پاکستان کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں بھی مداخلت کی جارہی ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیے یورپی پارلیمان میں منظور کی جانے والی قرار داد کا سبب بھی اسی عالمی جنگ کا تسلسل ہے۔ اس جنگ میں اسلام دشمن تہذیب مغرب اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو عالم اسلام سے ضمیر فروش آلہ کار دستیاب ہیں، اس حکمراں طبقے نے ضمیر فروشی کی تمام حدیں پار کردی ہیں لیکن اپنے آقائوں سے ’’وفاداری‘‘ کا صداقت نامہ نہیں مل رہا۔ اب بدلتے عالمی حالات نے عالم اسلام کے لیے جو نئے امکانات پیدا کیے ہیں ان سے استفادے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حق کی شہادت دینے والے اور باطل کی مزاحمت کی روح کو زندہ کرنے والے افراد، گروہ اور جماعتوں کی قلت ہے، عالمی صف بندی میں تبدیلی کے اثرات تو ظاہر ہورہے ہیں اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تنازعات کے خاتمے کے لیے بات چیت اور صلح کی پیشکش کردی ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دونوں برادر ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی گئی تھی لیکن خبروں کے مطابق عراق کی حکومت نے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کا ڈول ڈال دیا ہے۔ ایران کی طرف سے سعودی پیشکش کا خیر مقدم بھی کیا گیا، ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ سعودی عرب اور شام اور سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بھی مصالحتی رابطے شروع ہوگئے ہیں۔ ورنہ منظر یہ نظر آرہا تھا کہ اسلام دشمن عالم کفر کے مقابلے میں امت کو متحد کیے جانے کے بجائے
دو واضح کیمپ طاقتور مسلم ملکوں کی جانب سے کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اسی تناظر میں بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ان تبدیلیوں کا سبب عالمی سطح پر چین اور روس کی طاقت میں اضافہ ہونا ہے جس نے عالمی سیاست میں اپنا کردار بڑھا دیا ہے۔ امریکا نے چین کے خلاف سرد جنگ کو تیز کردیا ہے، امریکا اپنے عزائم دنیا سے چھپا بھی نہیں رہا ہے امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نئے امریکی صدر نے افغانستان سے فوجی انخلا کا سبب بھی یہی بتایا ہے کہ وہ چین کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہتے تھے ان تبدیلیوں نے امریکی آلہ کار حکومتوں کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے لیکن مسلم حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تزویراتی، سیاسی، اقتصادی مفادات کی کش مکش کے ساتھ عقیدے اور تہذیب کی جنگ جاری ہے۔ عالمی قوتوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسلام بطور نظام حیات یہ طور تہذیب کے قابل قبول نہیں ہے۔ او آئی سی کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی عقائد پر سرکاری سرپرستی میں فکری حملوں کی مدافعت کرے حق کی شہادت کے بغیر نصرت الٰہی نہیں آسکتی، نصرت الٰہی کے بغیر مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ بھی ممکن نہیں ہے۔ امت مسلمہ کا ایک مقصد وجود ہے۔ امت کا انتشار اس مقصد کے حصول کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب یہی دیکھ لیں سابق صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں سعودی اور پاکستان کی حکومتوں کو دھمکی دی۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد اس طرز عمل میں تبدیلی آگئی ہے؟ مسلمان ملکوں کی کمزوری کا سبب جابرانہ اور استبدادی حکومتوں کا تسلط ہے جو سیاسی عدم استحکام کا سبب ہے۔ جن ملکوں میں نام نہاد جمہوریت ہے وہاں بھی حقیقی آزادی نہیں ہے۔ جب مسلم دنیا کے حکمران مغربی طاقتوں کے غلام اور آلہ کار بنیں گے تو انہیں ڈکٹیشن قبول کرنی ہوگی۔ جابرانہ طرز حکمرانی کی موجودگی میں عالمی طاقتوں کی ڈکٹیشن کی مزاحمت نہیں کی جاسکتی۔