کورونا ازخود نوٹس این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑبڑ ہیں،عدالت عظمیٰ

447

اسلام آباد( نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑبڑہیں،سندھ میں جتنے پیسے خرچ ہوئے اسے پیرس بن جانا چاہیے تھا۔عدالت نے کورونا کے خلاف اقدامات سے متعلق این ڈی ایم اے اور حکومت سندھ کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا جبکہ حکومت کو 2روز میں آکسیجن سلنڈر کی قیمت کا تعین کرنے کا حکم بھی دے دیا۔عدالت عظمیٰ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز سے آکسیجن کی بڑی مقدار مل سکتی ہے اسے فعال کیا جائے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ 40 سال پرانا ہے، فعال کرنے پر ایک ارب لاگت آئے گی۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے آکسیجن سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔دوران سماعت ڈریپ حکام نے بتایا کہ وینٹی لیٹر سمیت کئی آلات پاکستان میں تیار ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ غیر رجسٹرڈ آلات اور ادویات کی درآمد کی اجازت کیوں دی؟ حکومت کو کیسے معلوم ہوگا کہ کونسی چیز منگوائی جارہی ہے؟ طبی آلات کی دستیابی کی کیا صورتحال ہے؟ کیا کوئی تحقیقات کیں کہ ادویات کیوں منگوائی جارہی ہیں؟ڈریپ حکام نے بتایا کہ کورونا سے متعلق کسی بھی دوا کی قلت نہیں، ایکٹمرا انجیکشن کے علاوہ کئی ادویات کا اسٹاک موجود ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے آئندہ سماعت میں این ڈی ایم اے کے چیئرمین کو طلب کر لیا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ ، چارٹرڈ جہاز کے ذریعے مشینری منگوائی اور اس کی ادائیگی بھی نقد ہوئی، کیش کس کو دیا گیا اور کس نے وصول کیا معلوم ہی نہیں، چار پانچ مرتبہ حکم دیا تو کچھ دستاویزات دی گئیں، اب ان دستاویزات کا بھی معلوم نہیں یہ کیا ہیں،قرنطینہ سینٹروں پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے مگر سب کو معلوم ہے کہ حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کا کیا بنا، کروڑوں روپے لگائے گئے لیکن وہاں نہ پانی ہے نہ ہی رنگ کیا گیا۔عدالت نے کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر سیکرٹری صحت سے تازہ رپورٹ طلب کرلی۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ کہتی ہے کہ اتنے روپے کراچی اور اتنے مریضوں پر خرچ کر دیے ہیں، اعداد و شمار کے مطابق تو سندھ پیرس بن جانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کا کہا گیا، اس خرچ پر تو سندھ کے تمام اسکول ہارورڈ اور شرح خواندگی 100 فیصد ہونی چاہیے تھی۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے پیش نہ ہونے پر وضاحت اور عدم پیشی پر تحریری جواب 15 دن میں طلب کر لیا۔جس کے بعد عدالت نے کیس پر سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔