بھارت میں کورونا پھیلائو کا سبب سیاسی جلسے اور کنبھ میلہ ہے

324

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید )بھارت میں کورونا پھیلائو کا سبب سیاسی جلسے اور کنبھ کے میلہ ہے ، ایک دن میں 42 لاکھ سے زیادہ افراد نے میلے میں شرکت کی ،جس بعد بھارت کے بڑے شہروں میں اب کورونا کی وجہ سے ویسے ہی قیامت خیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں،نریندر مودی نے سیاسی مقاصد کے لیے عوام کی جان داؤ پر لگادی، نہ سیاسی جلسوں پر پابندی لگائی نہ ہی انتخابات ملتوی کیے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں کورونا قہر ڈھا رہاہے۔ ان خیالات کا اظہار کالم نگار نصرت جاوید اور گجرات یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہداورصحافی یاسر پیرزادہ نے جسارت کے اس سوال کیا بھارت میں کورونا کی تباہی سیاسی جلسوں اور کنبھ کے میلے کا نتیجہ ہے کے جواب میں کیا۔کالم نگار نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ کنبھ میلہ دنیا کے سب سے بڑے اجتماع کی تیاری مہینوں سے جاری تھی اور یہ وقت تھا جب چند ہفتوں میں بھارت میں روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ کورونا کیس سامنے آ رہے تھے۔ اس میلے میں عہدیداروں کاکہنا ہے کہ ایک دن میں 42 لاکھ سے زیادہ عقیدت مند دریا میں نہاتے رہے ہیں۔ اس کے بعد کورونا کی وجہ سے ویسے ہی قیامت خیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو آج سے ایک سال قبل امریکاکے کئی شہروں کے علاوہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں نظر آرہے تھے۔ ذاتی طورپر میں ’’دشمن‘‘ کو انتہائی مصیبت میں مبتلا دیکھتے ہوئے ربّ کریم سے رحم کی فریاد کررہا ہوں۔ مودی سرکار اپنے ہاں ویکسین کی سپلائی چین کو موثر تر بنانے اور کو رونا کی زد میں آئے بدنصیبوں کو آکسیجن کی فراہمی یقینی بنانے کے بجائے چند دنوں سے ٹوئٹر کی انتظامیہ کو مجبور کررہی ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر ایسے پیغامات نظر آنے نہ دے جو بھارت کو کورونا کے روبرو بے بس ہوا دکھائی دے رہے ہیں۔اپنے وطن کے Imageیعنی شوشا کا تحفظ گویا اس کی اولیں ترجیح ہوگئی ہے۔بھارت سے اس ضمن میں پوسٹ ہوئے پیغامات کی اکثریت بلکہ نام اور مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فریاد کررہی تھی کہ فلاں شہر کے مقام پر فلاں شخص کو آکسیجن کی اشد ضرورت ہے۔ مودی سرکار کو رو نا کے ہاتھوں بے بس ولاچار ہوچکی ہے۔ادویات کی تیاری کے حوالے سے چین کے علاوہ بھارت اس صنعت کا حتمی اجارہ دار تصور ہوتا ہے۔چند ہی دن قبل بھارت نے امریکا سے باقاعدہ درخواست کی تھی کہ اس کے دواساز اداروں کو ویکسین کی ان تمام اقسام کی تیاری کے ’’فارمولے‘‘ فوراََ فراہم کیے جائیں جو اس وبا کے تدارک کو یقینی بناتے ہیں۔ان کی تیاری کے لیے لازمی شمار ہوئے مخصوص خام مال کی فوری بنیادوں پر فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس ضمن میں ہنگامی طورپر کوئی پیش قدمی نہیں دکھائی۔ بھارتی عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ امریکاکے سفاکانہ لاتعلقی اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔دوسری لہر میں سب سے زیادہ کیس ریاست مہاراشٹر میں سامنے آ رہے ہیں۔لیکن کنبھ میلے کے انعقاد کی اجازت نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ماہرین میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ابھی تک بدترین صورتحال آنا باقی ہے جب تک کہ سخت اور فوری اقدامات نہ کیے جائیں اور ویکسینیشن کا عمل تیز نہیں کیا جاتا۔ بھارت میں اب تک کورونا ویکسین کی 100 ملین سے زیادہ خوراکیں دی جا چکی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسینیشن کا عمل مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔گجرات یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ عالمی میڈیا کی جانب سے مودی کو کورونا بحران کا ذمے دار ٹھہرایاگیا اور کہا گیا کہ بھارت میں کورونا کے تیزی سے پھیلاؤکی وجہ کنبھ میلے اور انتخابات بنیںہیں۔چند دن قبل اساتذہ یونین کے ترجمان ڈاکٹر آر پی مشرا نے بتایا کہ اتر پردیش میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ڈیوٹی انجام دینے والے 700 سے زیادہ اساتذہ کورونا سے زندگی کی بازی ہارے۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں روزانہ 4سے 5لاکھ افراد میں وائرس کی تصدیق ہورہی ہے،مہاراشٹر، دہلی اور کرناٹک میں برا حال ہے۔دہلی میں ہر 3 میں سے ایک شخص میں کورونا کی تشخیص ہورہی ہے۔ لیکن اس بات میں کو ئی دوسری رائے نہیں ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ مسلمانوں اور خاص طور پربابری مسجد سمیت سیکڑوں مساجد کو شہیدکر نے والوں کا یہی حشر ہو نا تھا، کاش بھارت اورمودی اس حشر سے ہی کو ئی سبق سیکھ لیں۔ صحافی یاسر پیرزادہ نے کہا کہ بھارت میں کورونا کا یہ طوفان اچانک یا ایک دن میں نہیں آیا۔ گزشتہ برس اپریل میں مودی کو اس بات پر مبارکباد دی تھی کہ کس دانشمندی کے ساتھ مودی جی نے کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی، مودی کے دست راست امیت شاہ نے اس وقت کہا تھا ’’ہر ہندوستانی نریندر مودی کی قیادت میں خود کو محفوظ تصور کرتا ہے اور ان پر مکمل اعتماد کرتا ہے۔‘‘ بھارتی میڈیا میں دکھائے جانے والے دلخراش مناظر نے بھی عوام کی سوچ میں کسی حد تبدیلی پیدا کی،کورونا وائرس کی تباہی کے نتیجے اگر کوئی مثبت بات ہو سکتی تھی تو وہ بھارت اور پاکستان کے عوام کا اس بات کو سمجھنا تھا کہ انسانی جان کس قدر قیمتی چیز ہے۔ ایٹم بم کے بارے میں تو خیر سوچنا ہی حماقت ہے، اگر خدا نخواستہ ان 2 ملکوں میں کوئی چھوٹی موٹی جنگ بھی چھڑ گئی تو اس کی تباہی ایسی ہولناک ہو گی کہ لوگ پچھلی جنگیں بھول جائیں گے۔پاکستان نے بھارت کو متعدد مرتبہ یہی کہا ہے کہ کشمیر کے مسائل کو حل کرنے میں مذاکرات کی میز پر آئیں لیکن بھارت نے ہر بار انکار کیا ہے۔