اکیسواں سبق: اسلام میں حلال و حرام

294

مطالعہ قرآن: ’’اے لوگو کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو چیزیں حلال اور ستھری ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرہ: 651) قرآن کریم اور سنت نبویہ میں رزق حلال کا نہایت اہتمام سے ذکر کیا گیا ہے، یہاں تک کہ علمائے قرآن وسنت نے اس کی اہمیت ان الفاظ سے کی ہے کہ ’’دین معاملات کا نام ہے‘‘ شریعت اسلامیہ نے کسب حلال کو عبادت شمار کیا ہے اور اس کے بے شمار فضائل بیان کیے ہیں سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے (معجم الاوسط) اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’حلال مال کا طلب کرنا دوسرے فرائض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے‘‘۔ اسلام پاکیزگی کا مذہب ہے اس نے ہر شعبے میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے، عقائد و اعمال کے علاوہ ذریعہ معاش کے پاک ہونے پر بھی بڑا زور دیا ہے قرآن کریم کی متعدد آیات میں ’’اکل طیب‘‘ پاک کھانے کا ذکر آیا ہے سورہ بقرہ 172 میں ارشاد باری ہے ’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ سورہ مائدہ آیت 88 میں ارشاد ہے اور جو حلال پاکیزہ روزی تمہیں اللہ نے دی ہے وہ کھاؤ اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔ اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اے لوگو! بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے اللہ نے سارے اہل ایمان کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے اپنے انبیاکو دیا ہے‘‘۔ قرآن نے حرام سے بچنے اور حلال حاصل کرنے کے لیے مختلف مقامات پر مختلف عنوانات قائم کیے، ایک آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق پر بڑا اثر حلال کھانے کا ہوتا ہے اگر اس کا کھانا حلال نہیں تو اس سے اخلاق حمیدہ اور اعمال صالحہ کا صدور مشکل ہوتا ہے۔
اے انبیا کے گروہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو (القرآن) اس آیت میں حلال کھانے کے ساتھ عملِ صالح کا حکم فرماکر اسی جانب اشارہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صدور جب ہی ممکن ہے جب انسان کا کھانا پینا حلال ہو۔ ایک حدیث میں واضح طور پر آرہا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ ایک اور حدیث میں آپ ؐنے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایا ہے کہ چار خصلتیں ایسی ہیں جب وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو پھر دنیا میں کچھ بھی حاصل نہ ہو تو تمہارے لیے کافی ہے۔ ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے اچھے اخلاق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام۔ حرام مال کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اولاد فرمانبردار نہیں ہوتی جب کہ حلال مال سے پرورش شدہ اولاد والدین کی فرمانبردار ہوتی ہے اور اس پر کئی واقعات شاہد ہیں۔
مطالعہ حدیث: سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ ’’حلال روزی طلب کرنا فرض ہے، اللہ تعالیٰ کے فرائض کے بعد اہم فریضہ کسب حلال ہے‘‘۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ: ’’وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام غذا سے کی گئی ہو۔ (بخاری) سیدنا مقدام بن معدی کربؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ: ’’کسی شخص نے اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا جو اس نے اپنے ہاتھ سے کما کر کھایا ہو اور اللہ کے نبی سیدنا دائودؑ اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘۔ (بخاری)
سیرت النبیؐ: خود نبی اکرم ؐ کی عادت شریفہ تھی کہ ظہر کے بعد آپؐ بازار تشریف لے جاتے اور بازار کا معائنہ فرماتے، ایک مرتبہ آپؐ ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا تو آپ ؐکی انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی آپ ؐ نے فرمایا کہ اے غلے والے! یہ تری کیسی ہے؟ یعنی ڈھیر کے اندر یہ تری کہاں سے پہنچی اور تم نے غلہ کو تر کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! اس تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا (جس کی وجہ سے غلہ کا کچھ حصہ تر ہو گیا ہے میں نے قصداً تر نہیں کیا ہے) آپؐ نے فرمایا کہ تو پھر تم نے غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھا (تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے اور کسی فریب میں مبتلا نہ ہوتے) یاد رکھو جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرے طریقہ پر نہیں ہے) (مشکوۃ بحوالہ مسلم) نبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک صحابی نے عرض کیا کہ مجھے خرید و فروخت میں لوگ دھوکا دیتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تم خریدو تو کہہ دیا کرو کہ (لَا خِلَابَۃَ) اس میں دھوکا نہ ہو۔ (بخاری) یعنی مجھے چیز کی سمجھ نہیں ہے، اس لیے اس میں دھوکا نہیں چلے گا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی روایت سے بخاری میں حدیث ہے کہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا ایک غلام تھا جو ان کی زمین کا محصول (خراج) وصول کرتا تھا اور ابوبکر صدیقؓ اس کا وصول کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے۔ ایک روز کی بات ہے کہ اس نے کوئی چیز لاکر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں رکھی اور انہوں نے اس میں تناول فرما لیا۔ غلام نے ابوبکرؓسے عرض کیا: ’’آپ کو خبر ہے کہ یہ کیا ہے جو آپ نے کھایا ہے؟‘‘ ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: نہیں، کیا ہے؟ غلام نے بتایا ’’میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی کے لیے کہانت کی تھی، حالانکہ کہانت کرنے کا مجھے ڈھنگ نہیں تھا، میں نے اسے دھوکا ہی دیا تھا، اب جبکہ اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے یہ چیز دی جو آپ نے تناول فرمائی ہے‘‘۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنا ہاتھ منہ میں داخل کیا اور پیٹ میں جو کچھ تھا، اسے قے کرکے باہر نکال دیا۔