آئی ایم ایف کی سخت شرائط منوانے کی تیاریاں

310

پی ٹی آئی حکومت کے چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اچانک آئی ایم ایف کی جانب توپوں کا رخ کردیا اس کے بغیر گزرارا نہ کرنے والی حکومت کے وزیر خزانہ کہنے لگے کہ آئی ایم ایف کے مطالبات ناجائز ہیں اس ادارے نے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی ہے اس کے پروگرام پر نظرثانی کا اشارہ بھی دیا ہے۔ وزیر خزانہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے پہلے یہی سب کچھ ان کی حکومت کو سنجیدہ سیاسی اور معاشی ماہرین سمجھا رہے تھے کہ آئی ایم ایف جس ملک کی معیشت کے معاملے میں دخیل ہوجائے اس ملک کی معیشت مفلوج ہوجاتی ہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی امداد دے کر اپنے ایجنڈے پر عمل کرانے میں دلچسپی رکھنے والا ادارہ ہے۔ اب اگر وزیر خزانہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ معیشت کا پہیہ نہیں چل رہا تو وہ درست کہہ رہے ہیں لیکن یہی بات تو حکومت کو پہلے بھی سمجھائی جارہی تھی کہ آئی ایم ایف سے دوستی خودکشی کے مترادف ہے اور سمجھا نا کیسا خود وزیراعظم عمران خان یہی کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی کرلوں۔ انہوں نے خودکشی کرلی بلکہ ملک کو خودکشی پر مجبور کیا۔ اب ان کے چوتھے وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ٹیرف میں اضافے سے کرپشن بڑھی ہے۔ شوکت ترین صاحب نے یہ ساری باتیں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی ہیں۔ لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے بارے میں وہی خیالات رکھتی ہے جن کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی ٹیرف بڑھانے، اداروں کی نجکاری کرنے، پنشن اور ملازمین کی تعداد کم کرنے کے لیے شدید دبائو ہے۔ اور نجکاری کا تو وزیر خزانہ شوکت ترین نے پھر عزم ظاہر کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت جن اداروں کو نہیں چلا سکتی ان کی نجکاری کردی جائے گی۔ لیکن اس میں ایک نہایت اہم نکتہ پوشیدہ ہے کہ حکومت ان اداروں کو کیوں نہیں چلا سکتی۔ اس کا سبب اس کی نااہلی ہے تو ادارہ کیوں پرائیوٹائز کیا جائے اور اگر ادارے میں خرابی ہے تو اس کی اصلاح کیوں نہ کی جائے۔ یہ درست ہے کہ ہر کام حکومت کے کرنے کا نہیں ہوتا لیکن کچھ اداروں کے بارے میں تو اصولی فیصلہ ہونا چاہیے کہ ان کی نجکاری کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، کے پی ٹی، جہاز رانی وغیرہ یا ایسے شعبے جن کا قومی دفاع، حساس معاملات اور معلومات سے تعلق ہو۔ پاکستان اسٹیل تو ایسا ادارہ ہے کہ آج اگر اسے بحال کردیا جائے تو سی پیک کا بہت بڑا حصہ اس کے پاس آجائے۔ لیکن حکمران اس جانب توجہ کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ انہوں نے کسی کے اشارے پر ہی طے کر رکھا ہے ان اداروں کی نجکاری کردی جائے گی۔ وزیر خزانہ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت جن اداروں کو نہیں چلا سکتی ان کی نجکاری کی جائے گی تو سب سے پہلے پی ٹی آئی اپنی حکومت کی نجکاری کردے۔ کیوں کہ اس سے حکومت نہیں چلائی جارہی بلکہ وہ حکومت چلا ہی نہیں سکتی۔ وزیر خزانہ کی بریفنگ سے یہ تاثر ہرگز نہ لیا جائے کہ حکومت آئی ایم ایف سے جان چھڑانا چاہتی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے سخت ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے فضا بنائی جارہی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ گویا آئی ایم ایف کی سخت شرائط منوانے کی تیاریاں ہیں۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو جرأت مندانہ فیصلے کرسکے، جس پر پوری قوم کو نہیں تو بڑی بھاری اکثریت کو اعتماد ہو لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ حکومت کو خود اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے۔ ڈھائی پونے تین سال میں چوتھا وزیر خزانہ لانے کا مطلب بھی بہت واضح ہے کہ حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرح حکومت چلائی جائے۔ وزیر خزانہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کررہے ہیں لیکن جس طرح ہر چیز پر ٹیکس بڑھایا اور وصول کیا جارہا ہے اس سے تو نہیں لگتا کہ ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ ٹیکسوں میں بے پناہ اضافے کے نتیجے میں لوگ چور دروازے تلاش کرنے لگتے ہیں اور پھر کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر حکمران خود چوری نہیں کررہے ہوں گے تو وہ سب کو روک سکیں گے لیکن پوری حکومت میں بشمول عمران خان کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت کی صفوں میں مافیاز، چور اور دو نمبر لوگ نہیں ہیں۔ اصل اصلاح اور صفایا اپنی صفوں کا کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔