مودی کی انتہا پسندی کے نتائج آنا شروع

361

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندانہ اور مسلم دشمن پالیسیوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ان کی پارٹی کو تین ریاستوں کے انتخابات میں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ خصوصاً مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے وہاں ترنمول کانگریس نے ممتا بنرجی کی قیادت میں185 نشستیں حاصل کر لی ہیں اس کے ساتھ ساتھ تامل ناڈو اور کیرالہ میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے ۔ یہ شکست تو انتخابی میدان میں ہے لیکن بھارت میں حکمرانوں اور میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف جس انداز میں فضا پیدا کی تھی اس کے نتیجے میں جو رد عمل پیدا ہوا ہے ابھی اس کے نتائج سامنے آنا باقی ہیں جو زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں ۔مسلمانوں پر جس انداز میں جنونی ہندئوں نے تشدد کیا اور بھارتی حکام تماشا دیکھتے رہے اس سے انتہا پسند ہندوئوں اور بھارتی حکومت دونوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ بھارت کی مختلف حکومتیں اب تک اپنی ہندو انتہا پسندی کو چھپا کر رکھتی تھیں ، مودی سرکار نے اس انتہا پسندی کو سرکاری سر پرستی دی جس نے بھارت کے چہرے پر بھیانک سیاہی مل دی ہے ۔جبکہ دوسری طرف مسلمانوں نے کورونا کے خلاف جنگ میں بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب اپنی مساجد اور مدارس کے دروازے کھول دیے ، اسپتال بنا دیے ، خون دیا، پلازما دیا اور ہر طرح مدد کی تاہم بھارتی حکمران لاکھ کوشش کریں کہ خود کو سیکولر یا جمہوری ثابت کر لیں لیکن کشمیر اور بقیہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ اس کے سلوک نے اس کو انتہا پسند ریاست ثابت کر دیا ہے ۔ پونے دو سال سے کشمیریوں کا لاک ڈائون ان کا مکمل معاشی مقاطعہ جدید دنیا کی تاریخ میں غزہ کے بعد دوسری مثال ہے ، مہذب ہونے کا دعویٰ کرنے والی دنیا کو یہ سب نظر نہیں آتا ۔ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے ۔حیرت ہے یورپی پارلیمنٹ کو پاکستان کے خلاف قرار داد منظور کرتے وقت بھارتی حکومت اور فوج کے ہاتھوں کشمیر اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات نظر نہیں آتے ۔ گوشت کھانے کے نام پر زندہ جلا دینے کے واقعات نظر نہ آئے ۔ لیکن اب بھارتی حکمرانوں کی پالیسیوں کا مکافات عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں مسلمانوں میں نئی زندگی بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن اس کا زیادہ انحصار پاکستانی حکمرانوں کے رویے پر ہے ۔ اگر وہ خود مضبوطی کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے بل پر بھارتی مسلمان ہمت کا اظہار کریں گے۔