چین ایران اقتصادی معاہدہ اور اس کے اثرات

333

امریکی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران نے چین کے ساتھ 25 سالہ اقتصادی معاہدہ کیا ہے، جو تقریباً 400 ارب ڈالر کی مالیت پر مبنی بتایا جارہاہے۔ ماہرین اقتصادیات اس معاہدے کو عالمی اقتصادی نظام کے لیے غیر معمولی اثرات کا حامل سمجھ رہے ہیں۔ اس معاہدے کا براہ راست اثر مشرق وسطیٰ کی سیاست پر بھی مرتب ہوگا، خصوصاً سعودی عرب، پاکستان، افغانستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک اس معاہدے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ چونکہ اس وقت دونوں ملکوں کا مشترکہ دشمن امریکا ہے، اس لیے یہ معاہدہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتاہے۔ جوہری معاہدے سے امریکا کے فرار کے بعد ایران عالمی منڈی میں اپنی خاطر خواہ نمایندگی چاہتا تھا جو چین کے ذریعے ممکن ہوگی۔ وہیں امریکا کی چین کے ساتھ کشیدگی نے اس تجارتی معاہدے کو مزید تقویت بخشی ہے۔ اس معاہدے کے نفاذ کے بعد چین ایران میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور ایران سستے داموں پر اسے تیل، گیس اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کرے گا۔ چونکہ ابھی تک اس معاہدے کے اہم نکات منظرعام پر نہیں آئے ہیں، لہٰذا ان پر بات کرنا فی الحال ممکن نہیں، مگر مختلف ذرائع ابلاغ سے جتنی معلومات سامنے آئی ہیں، وہ اس معاہدے کی اہمیت اوردیرپا اثرات کو واضح کرتی ہے۔
چین کے ساتھ ایران کا طویل مدتی اقتصادی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے خوشگوار تبدیلیاں لے کر آئے گا۔ ایران قدرتی ذخائر کا بہترین مرکز ہے۔ چین اس کے لامحدود ذخائر سے استفادہ کرسکے گا اور چینی عوام کو گرانی سے نجات ملے گی۔ وہیں ایران جو مسلسل امریکا کے ذریعے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا شکارہے، عالمی سطح پر اپنے لیے نئے تجارتی و اقتصادی امکانات کی تلاش کرے گا۔ ایران نے اس معاہدے کے ذریعے امریکا کی آمرانہ پالیسیوں کو ٹھینگا دکھایا ہے۔ اس معاہدے سے امریکا کی تشویش میں اضافہ ہواہے مگر ابھی تک اس کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ اگر امریکا اپنی طاقت کے نشے میں ایک بار پھر ایران پر نئی پابندیاں عائد کرتاہے تو اس کا نقصان ایران سے زیادہ امریکا کو ہوگا، کیونکہ ایران تو گزشتہ کئی برس سے امریکی اقتصادی پابندیوں کو برداشت کررہاہے اور نئی پابندیوں کے نفاذ کے بعد بھی اس کی رفتار میں کمی نہیں آئے گی، کیونکہ ایران ایسی پابندیوں کا عادی ہوچکاہے۔ اگر وہ امریکی پابندیوں سے خوفزدہ ہوتا تو چین کے ساتھ کبھی طویل مدتی اقتصادی معاہدے پر دستخط نہیں کرتا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنا یہ ظاہر کررہاہے کہ ایران امریکی آمریت سے ہرگز ڈرنے والا نہیں ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار اور آزاد ہے۔ اس کی پالیسیاں اپنے قومی و ملکی مفاد کے مطابق ترتیب پاتی ہیں۔ اب جبکہ ایران چین کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی معاہدہ کرچکاہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکی صدر جو بائیڈن جو اقتدار میں آنےسے پہلے ہمیشہ جوہری معاہدے کی حمایت کرتے رہے ہیں، کیا دوبارہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرتے ہیں۔ جس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے یکطرفہ فرار کا اعلان کیا تھا اس کے بعد مسلسل جوبائیڈن ٹرمپ کے اس یک طرفہ فیصلے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے انتخابی تشہیر میں بھی جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا تھامگر ابھی تک ان کی طرف سے اس راہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا چین اور ایران کے درمیان ہوئے اس معاہدے کے بعد اب پوری دنیا امریکی مؤقف کی منتظر ہے۔
اس معاہدے کے بعدایران عالمی نرخوں سے کم قیمت پر چین کو تیل کی فراہمی کرے گا، جس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ایران کی تیل کی تجارت متوقف نہیں ہوگی اور اس طرح وہ اپنے ذخائر کو چین تک منتقل کرسکے گا۔ ممکن ہے کہ چین ایرانی تیل کو بدلی ہوئی قیمتوں پر خطے کے دیگر ممالک کو فروخت کرے کیونکہ خطے میں چین کے تجارتی اثرات سے ہر کوئی واقف ہے۔ اس کے علاوہ چین ایران میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرائے گا۔ ظاہری طورپر یہ معاہدہ ایران اور چین کے مفاد میں ہے مگر خطے کے تمام ممالک اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب تنہا ایسا ملک ہے جو اس معاہدے سے خوش نہیں ہے کیونکہ وہ امریکا کا اتحادی ہے۔ سعودی عرب اپنے اختلافات کے باعث ایران کو طاقتور ہوتے نہیں دیکھ سکتا جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یمن میں جاری جنگ بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک اہم وجہ بنی ہوئی ہے۔ ایران یمنی باغیوں کی حمایت کرتا ہے جب کہ سعودی عرب ان تنظیموں کے خلاف امریکا کی مدد سے یمن پرحملہ آور ہے۔ اس لڑائی میں اب تک ہزاروں یمنی مارے جاچکے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور وبائی امراض نےانہیں گھیر رکھاہے۔
ماہرین کےمطابق چین ایران معاہدے کے واضح اثرات ایرانی معیشت پر اثرانداز ہوں گے۔ ساتھ ہی چینی معیشت بھی مزید رفتار پکڑے گی۔ جوہری معاہدے سے امریکا کے فرار کے بعد ایران مسلسل یورپی یونین سے نئے اقتصادی میکانزم کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ایران چاہتاہے کہ ایک ایسا اقتصادی میکانزم تیار ہو جس میں ڈالر اور امریکی بینکوں کے تعاون کے بغیر تجارت ممکن ہوسکے۔ یورپی یونین ایران کے مطالبات سے متفق ہے، مگر اب تک ایسا میکانزم تیار نہیں ہوسکاہے۔ اس نئے معاہدے کے ذریعے ایران چین کی نئی ڈیجیٹل کرنسی E-RMB کو منظوری دے سکتا ہے، تاکہ ڈالر کے ذریعے عالمی تجارت کو متاثر کیا جاسکے۔ اگر چینی ڈیجیٹل کرنسی عالمی بازار میں تجارت کے لیے اچھا متبادل بن کر ابھرتی ہے تو اس سے امریکی ڈالر کمزور ہوگا اور امریکی اقتصادی نظام متزلزل ہوکر رہ جائے گا۔ اس معاہدے کا ایک اہم رخ یہ بھی ہے کہ چین اور ایران کے درمیان ممکنہ طور پر مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوں گی، جس سے دفاعی نظام کی بہتری اور ہتھیاروں کے لین دین کے معاملات آگے بڑھیں گے اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جس نے امریکا اور اسرائیل کی نیند اڑا دی ہے۔ خطے کی دفاعی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور ایران کے درمیان ہونے والے غیر معمولی معاہدے کے کئی پہلو ہیں اور اسی طرح اس کے اثرات بھی ہمہ جہت اور دور رس ہوں گے۔