یوم مئی اور مزدور مسائل

102

ریاض عباسی
کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح اب بھی لاک ڈائون کی بات کی جارہی ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقہ ہوا ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 80 لاکھ کے قریب محنت کش اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، بیماری کے ساتھ محنت کش بھوک و افلاس کے ساتھ نبرد آزما ہے اور ایسے حالات میں یوم مئی منایا گیا۔ یوم مئی کی افادیت سے اور اس دن کے منانے سے لاکھوں محنت کش بے خبر ہیں جو اس دن بھی اپنے کام پر جاتے ہیں اگرنہ جائیں تو اجرت کاٹ لی جاتی ہے۔ حکومت نے صرف اپنی عیاشی کے لیے چھٹی منانے پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ لاکھوں محنت کشوں کو کورونا کی آڑ میں ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا کہ نقصان ہوا ہے جبکہ یہی محنت کش گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کے منافع کا ذریعہ رہے ہیں اور وہ انہیں 3 ماہ بھی برداشت نہ کرسکے۔ کئی جگہ احتجاج ہوا، گرفتاریاں ہوئیں، فائرنگ کی گئی اور ظلم یہ ہوا کہ وہ ادارے جنہیں ہماری حفاظت کرنی تھی سرمایہ داروں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ کروڑوں روپے حکومت سے لیے گئے، ورکروں کو تنخواہ ادا نہیں کی گئی، کم سے کم اجرت کا اجراء نہیں کیا گیا، گارمنٹ اور فارماسیوٹیکل اداروں کے لیے کورونا نعمت ثابت ہوا اور ان کے منافع کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پروڈکٹ کی قیمت میں سو فیصد اضافہ کیا گیا مگر ورکر کو اس سے محروم رکھا گیا۔ سوشل سیکورٹی اور ورکرز ویلفیئر جیسے ادارے تباہ کردیے گئے۔ EOBI کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے اس ادارے میں کھربوں کی کرپشن کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے۔ نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے جیسے ادارے ان کرپٹ افسران کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوئے۔ جہاں سے وہ پاک صاف ہو کر دوبارہ آجاتے ہیں۔ حالانکہ کرپشن ثابت شدہ ہوتی ہے، عدالت سے انصاف نہیں ملتا، اگر مل بھی جائے تو اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ اس کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ NIRC جو ورکرز کے رابطے کے لیے بنایا گیا تھا اس کا غلط استعمال محنت کشوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوا، کرپٹ لیبر لیڈر اور دلال نما
وکیل کھلے عام محنت کشوں کو بیچ رہے ہیں، جعلی یونین رجسٹر کروا کر مالکان کو دے رہے ہیں اور پھر محنت کشوں کے پاس آکر نعرے لگاتے کہ سرمایہ داروں کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ کیونکہ مزدور اللہ کا دوست ہے۔ انٹرنیشنل ادارے ہمارے ہی پیسوں سے کچھ پروجیکٹ کے نام پر خیرات کرتے ہیں یہاں سے کرپشن اور لوٹ مار کرکے ان کے بچے یورپ اور امریکا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو فیس دیتے ہیں اور یہ خود سیر سیاحت کے ذریعے ان کی آمدنی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ پاکستان میں 95 فیصد جعلی یونین رجسٹر ہیں۔ ورکرز کے پاس نہ تقررنامہ نہ سوشل سیکورٹی، EOBI کارڈ موجود ہیں، سندھ میں ٹھیکیداری نظام قانون میں موجود نہیں مگر ورکرز کے ویلفیئر کے اداروں میں کنٹری بیوشن ٹھیکیدار کے نام سے جاتا ہے۔ سندھ میں محنت کشوں کا جو وزیر ہے اس کے پاس محکمہ تعلیم بھی ہے، کام کی زیادتی کی وجہ سے وزیر صاحب کا ایک ایڈوائزر محکمہ لیبر کو چلا رہا ہے۔ نجکاری کے نام پر اداروں کو تباہ کیا جارہا ہے جبکہ PTCL کی فروخت سے 3 کھرب سے زائد مالیت کا
نقصان ہوا ہے۔ 570 ارب کے زائد سے HBL کو صرف 22 ارب میں فروخت کیا گیا۔ K Electric کے اصل مالکان کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا۔ اگر تانبے کی تاروں کا حساب کیا جائے تو اربوں میں بنتا ہے۔ یہ اقتصادی دہشت گردی تھی جس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ الائیڈ بینک، MCB، اٹک ریفائنری، آئی سی آئی، ڈی جی خان سیمنٹ اور دیگر 200 کے قریب اداروں کی نجکاری کی گئی اور کھربوں کی کرپشن کی گئی۔ اب واپڈا، ریلوے اور پاکستان اسٹیل کو بیچنے کی تیاری ہے۔ پاکستان اسٹیل کو پہلے بھی 21 ارب میں فروخت کردیا گیا جبکہ اس کے پاور ہائوس کی قیمت کئی زیادہ تھی۔ ریلوے میں کرپشن کا کیس عرصہ دراز سے نیب کے پاس ہے لیکن ایک صاحب بہادر کا نام ہے اس لیے چل نئی پارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کی لڑائی ختم کریں، لیفٹ رائٹ سے باہر نکلیں، ٹریڈ یونین کو خاندانی سیاست نہ بنائیں، نئے لوگوں کو موقع دیں، طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ اور ہم میں سے میر جعفر اور میر صادق کی اولادیں ان کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن ہم نے مایوس نہیں ہونا، جدوجہد جاری رکھنی ہے۔