ہندوستان اور کورونا،قابل غور پہلو

799

ہندوستان میں کورونا ہر گزرتے روز طاقتور ہوتا جارہا ہے،مسلسل کئی روز سے یومیہ 3 لاکھ سے زیادہ نئے کیس رپورٹ ہو رہے تھے لیکن ہفتے کو پہلی بار وہاں 4 لاکھ سے زائد کورونا کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو ایک عالمی ریکارڈ ہے، جبکہ 3523 اموات بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ اب تک کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ 64 ہزار سے زائد ہو چکی ہے جبکہ مجموعی اموات 2 لاکھ 11 ہزار 853 ہو چکی ہیں۔ تشویشناک صورتحال کے باعث امریکا نے بھارت پر سفری پابندیاں عاید کر دی ہیں جبکہ آسٹریلیا نے ہندوستان سے آنے والے شہریوں کی واپسی جرم قرار دے کر سخت سزاؤں کا اعلان کیا ہے۔اسپتالوں میں اور راہداریوں میں مریضوں کا رش ہے بستر پر دو، دو مریض بھی نظر آرہے ہیں۔حکومت کاکہناہے کہ وائرس کا عروج 3سے 5مئی کے دوران ہونے کا خدشہ ہے،امریکی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کی اہم رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ اموات کی تعداد مئی کے وسط تک بڑھ کر یومیہ 13ہزار تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد اِن دنوں رپورٹ ہونے والی اموات کے مقابلے میں 4 گنا ہے۔انسٹی ٹیوٹ کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ وبائی مرض مئی کے وسط تک ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے حصوں میں غیر معمولی اضافے کا باعث بنے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کیسز اور اموات میں غیر معمولی اضافہ جاری ہے اور ہمارے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ انفیکشن کا پتا لگانے کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے، شاید اس وقت 3 سے 4 فیصد کے قریب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے جن کیسز کی تشخیص ہورہی ہے اس کو 20 گنا تک بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وائرس کا شکار ہونے والوں کی اصل تعداد سامنے آسکے۔کورونا کی وجہ سے موت کا جو رقص شروع ہوا ہے اس کی تصویروں نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔کہیں کوئی ماں اپنے بیٹے کی لاش آٹو رکشہ پر رکھ کر تو کہیں کوئی شوہر اپنی بیوی کی لاش سائیکل پر رکھ کر لے جا رہا ہے۔ انسانی بے بسی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کوئی آگے بڑھ کر ان کی مدد کے لیے نہیں آرہا ہے۔صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ آخری رسومات ادا کرنے کے لیے میتوں کو آخری منزل تک پہنچانے کے لیے کندھا دینے والے بھی نہیں مل رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار بھی متوفی کو کاندھا دینے سے کترا رہے ہیں، جس کی وجہ سے میت کو شمشان گھاٹ تک پہنچانا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کے بعد رقم دے کر کندھا دینے کا ’’کام‘‘شروع ہو گیا ہے لوگوں کو لاش ’’منزل مقصود‘‘ تک پہنچانے کے لیے 5 سے 10 ہزار روپے تک فی کس ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی متعدد تقریروں میں عوام کو ’’آپدا میں اوسر‘‘ (مصیبت میں موقع) تلاش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لوگ ان کے اس جملے کو اب طنزیہ طور پر استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مصیبت میں اس سے زیادہ بہتر موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ جن کے پاس زیادہ وسائل ہوں وہ لوگوںکی مدد کو آگے بڑھتے ہیںلیکن اخلاقی دیوالیہ پن اپنی انتہا پر ہے اور کورونا کے خوف سے وہاں کے امیر ،دولت مند ملک سے فرار ہورہے ہیں۔ٹائم میگزین نے اس صورتحال کی ذمہ داری وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کچھ طاقتور وزراء پر عاید کی ہے جو کچھ دن پہلے تک بڑی بڑی الیکشن ریلیوں سے خطاب کر رہے تھے۔مارچ کے اوائل میں ہندوستان کے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا کہ ملک میں کورونا عالمی وبا کا کھیل ختم ہوا۔ مودی کو ویکسین گوروکہا جانے لگا۔جنوری کے بعد سے ہندوستان نے ’’ویکسین ڈپلومیسی کے طور پر بیرونی ممالک کو ویکسین کی خوراکیں فراہم کرنا بھی شروع کردیں۔لیکن اس صورتحال میں بھی ہندوستان نے پاکستان کو ویکسین نہیںدی ۔جب کہ پاکستان اس وبا میں بھارت کوتعاون کی پیشکش کررہا ہے۔گھمنڈی مودی حکومت اس قدر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئی کہ پہلی لہر ختم ہونے کے بعد مریضوں کی تعداد کچھ کم ہوئی توحکومت نے اس وائرس کو شکست دینے اور دنیا کے سب سے بڑے کمبھ میلے کا اعلان کردیا ،جو ماہرین کے لیے بھی حیران کن تھا کیونکہ اس میلے میں کئی لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں ،پھر ہوا یہ کہ ابتداء میں ہی بیس ،پچیس لاکھ افراد دریائے گنگا میںنہا کر وائرس کے ساتھ پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔اس صورتحال پر ماہرین کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کا وائرس پر فتح کا اعلان قبل از وقت ثابت ہوا۔ بلومبرگ کے ایک کالم نویس مہر شرما نے کہا،جیسا کہ ہندوستان میں عام ہے، سرکار کا کبر، جنون زدہ قوم پرستی، پاپولزم اور بیوروکریٹک نااہلی ان سب نے مل کر یہ بحران پیدا کیا ہے۔ہندوستان میں کورونا وائرس کا پھیلائو جہاںمودی حکومت کی مجرمانہ نااہلی کی سبب پہلا وہاںا س مشکل گھڑی میں مسلمانوںکا رویہ قابل تحسین اور تقلید بن کرسامنے آیا جرمن ویب سائٹ ڈی ڈیبلو کے مطابق’’ ایسے حالات میں جب کہ کورونا سے مرجانے والے لوگوں کی لاشوں کو شمشان گھاٹ لے جانے اور ان کی آخری رسومات ادا کرنے میں مدد کرنے کے لیے ان کے رشتہ دار بھی تیار نہیں ہورہے ہیں ملک کے متعدد شہروں سے مسلم نوجوانوں کی طرف سے رضاکارانہ طورپر یہ خدمت انجام دینے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ مسلمان اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر یہ کام کر رہے ہیں اور ان کی خدمات کی تعریف بھی ہو رہی ہے۔صرف مدھیہ پردیش میں 2 مسلم نوجوان اب تک سیکڑوں لاشوں کی آخری رسومات میں مدد کر چکے ہیں‘‘۔جماعت اسلامی ہند کے سیکرٹری محمد احمد کے مطابق تقریباً1ملین لوگوں کو 10کروڑ روپے کی اشیائے خوردنی اور مالی امداد فراہم کی ہے اور جماعت ہمیشہ سے ہی زمینی و آسمانی آفات کے موقع پر ریلیف کا کام انجام دیتی رہی ہے۔ ریلیف اور آبادکاری کا یہ کام ہم بلا تفریق مذہب وملت تمام طبقوں میں انجام دیتے ہیں اور ہمارا عزم ہے کہ لاک ڈاون کے ختم ہونے تک ہم اپنا یہ کام جاری رکھیں گے‘‘۔حالانکہ گزشتہ برس جب بعض لوگ دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز سے واپس لوٹے تھے تو مسلمانوں کو وائرس پھیلانے والوں کے طور پیش کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا ، انہیں گن گن کر اور چن چن کر نشانہ بنایا گیا تھا،جس پربھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا تھا کہ’’ بھارتی حکومت کورونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے جذبات کو بھڑکا رہی ہے تاکہ مسلم نسل کشی شروع ہو۔‘‘ لیکن وہاں مسلمان ایسے وقت میں کہ جب ہندو خاندان کے افراد اپنے خاندان او محلے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ ان کے بدترین سلوک کا جواب خدمت اور محبت سے دے رہے ہیںاو ر ہندوئوں کی رگوںمیںمسلمانوںکا دیا پلازمہ دوڑ رہا ہے ،جب کہ ایسے میں بھی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی کے رہنما مسلمانوں کی رضاکارانہ خدمات سے خوش نہیں ہیں۔ کورونا کی ہندوستان میں تباہ کن صورت حال میں 2 باتیں ثابت ہوئی ہیںکہ مودی حکومت کی ناقص حکمت عملی اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے آج ہندوستان کے عوام کو موت کے بہت قریب کردیا ہے ، اور دوسرا یہ کہ ہندوستان کامسلمان ہندومتعصابنہ رویے اور بے پناہ مظالم کے باوجود بھی مشکل وقت میں بلا تفریق مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے جس کے یقینا دور رس اور مثبت نتائج نکلیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قابل تحسین و تقلید عمل کو سراہتے ہوئے مودی حکومت اور شدت پسند ہندوئوں کو مسلمانوں کے ساتھ اپنے ناروا سلوک اور رویے پرغور ضرور کرنا چاہیے۔