کراچی کے ضمنی انتخابات

258

کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخابات مکمل ہو گئے ہیں اور غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خاں مندوخیل کامیاب قرار دیے گئے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل دوسرے نمبر پر رہے۔ حلقہ میں تحریک انصاف، تحریک لبیک، ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی سمیت تیس امیدوار میدان میں تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس نشست پر تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے کامیابی حاصل کی تھی مگر کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی اور جھوٹ بول کر اپنی دہری شہریت کو چھپانے کے سبب ان کے انتخاب کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جس کی بنا پرنہ صرف ان کی کامیابی کالعدم قرار پا سکتی تھی بلکہ ان کے نا اہل قرار پانے اور دوسری سزا کا بھی قوی امکان تھا، اس سزا اور شرمندگی سے بچانے کے لیے انہیں سینیٹ کارکن منتخب کروا لیا گیا جس کے بعد فیصل واوڈا نے اس نشست سے استعفا دے دیا اور جمعہ 29 اپریل کو یہاں ضمنی انتخابات منعقد کروائے گئے۔ مجموعی طور پر اگرچہ ان انتخابات میں کسی بڑی بد نظمی وغیرہ کی شکایت سامنے نہیں آئی تاہم ان انتخابات میں انتہائی کم ٹرن آئوٹ تمام متعلقہ فریقین کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے کہ یہ کم ٹرن آئوٹ انتخابی عمل بلکہ جمہوری نظام پر عوام کے کم ہوتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔ اڑھائی درجن امیدوار اور عوام کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی میدان میں موجودگی کے باوجود صرف نو فی صد رائے دہندگان کا حق رائے دہی استعمال کرنا ایک لمحہ فکر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان انتخابات کا یہ پہلو بھی سیاسی مبصرین کی توجہ کا مرکز بنا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پہلے نمبر پر رہنے والی تحریک انصاف صرف اڑھائی برس بعد ہونے والے ان ضمنی انتخابات میں ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے چوتھے پانچویں نمبر پر کھڑی دکھائی دی جو موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی عوام میں عدم مقبولیت منہ بولتا ثبوت ہے ہمارے ملک کی یہ روایت چلی آئی ہے کہ ضمنی انتخابات میں عموماً برسراقتدار جماعت ہی کامیابی حاصل کیا کرتی ہے مگر موجودہ حکومت میں یہ روایت الٹ چکی ہے چنانچہ یہ پہلا ضمنی انتخاب نہیں جس میں حکمران تحریک انصاف کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہو بلکہ اس سے قبل نوشہرہ، وزیر آباد اور ڈسکہ وغیرہ میں بھی حکمران جماعت ناکامی سے دو چار ہو چکی ہے البتہ ان حلقوں میں تو تحریک انصاف کے امیدوار جیتنے والے امیدوار کا مقابلہ کرتے نظر آئے مگر کراچی کے ضمنی انتخاب کے دنگل میں تحریک انصاف کے امیدوار کا پہلے سے چوتھے پانچویں نمبر پر پہنچ جانا وزیر اعظم عمران خاں اور ان کے ساتھیوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے یہ صورتحال ان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اپنی حکومتی، سیاسی اور جماعتی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور کریں جن کے باعث حکمران جماعت کے خلاف عوام میں نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے مرحلہ پر یہ دلچسپ صورتحال بھی عوام کو دیکھنے کو ملی کہ کل تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نامی جو بڑی سیاسی جماعتیں، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر شیر و شکر نظر آتی تھیں اور حکومت اور حکمران جماعت کے خلاف سنگین سے سنگین تر الزامات لگانے میں یک زبان سنائی دیتی تھیں، پی ڈی ایم کی ہنڈیا چورا ہے میں پھوٹنے کے بعد پہلے ہی ضمنی انتخابات میں نہ صرف ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں بلکہ انتخابی نتائج میں دھاندلی سے متعلق وہی الزامات ایک دوسرے کے خلاف دہرا رہی تھیں جو پہلے وہ مل کر حکومت پر لگایا کرتی تھیں گویا ہماری سیاست میں اصول نام کی کوئی چیز کہیں موجود نہیں، سیاسی قائدین اور ان کی سیاسی جماعتیں وقتی اور گروہی مفادات کی خاطر اکھٹے ہوتے ہیں اور یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے تو باہم سر پھٹول، گالم گلوچ اور الزام تراشی میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اللہ کرے کہ وہ دن جلد آئے جب ہمارے سیاسی قائدین مفادات کے بجائے اعلیٰ اخلاقیات اور اصولوں پر اپنی سیاست کی عمارت تعمیر کریں اور ذاتی و گروہی مفادات کے بجائے ملکی اور قومی مقاصد و مفاد ان کی ترجیح اول قرار پائے۔