توہینِ رسالتؐ اور مسلم حکمرانوں کا شرمناک عد م تحرک – شاہنواز فاروقی

531

یہ سن 2009ء کی بات ہے۔ اُس وقت کے پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے توہینِ رسالتؐ کی ایک بڑی واردات کو جنم دیا تھا اور اس پر پاکستان میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے تھے۔ کراچی میں شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں نے بھی ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ اس مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر، کالم نگار اور بینک کار جمیل الدین عالی نے کہا کہ توہینِ رسالتؐ اتنی بڑی واردات ہے کہ اس پر تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جمیل الدین عالی ایک اوسط درجے کے شاعر اور اوسط درجے کے کالم نگار تھے مگر توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے اُن کے منہ سے ایک بڑی بات نکل گئی۔ جمیل الدین عالی نے بالکل درست کہا کہ توہینِ رسالتؐ اتنی بڑی اور ہولناک واردات ہے کہ اس پر تیسری عالمی جنگ چھڑ جانا معمولی بات ہوگی۔ اس کی وجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور مرتبہ ہے۔ آپؐ سردار ا نبیاء ہیں۔ خاتم النبیین ہیں۔ کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ اللہ پر ایمان سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے متعلق ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے خالق، مالک، رازق یعنی اللہ پر ایمان لے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے تو اُس کا ایمان بارگاہِ خداوندی میں قابلِ قبول نہ ہوگا، اس لیے کہ انسانیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے اللہ تک پہنچی۔ اسی لیے مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا ہے کہ ہم محمدؐ کے خدا کو محمدؐ کے ذریعے جانتے ہیں۔ اذان اللہ کی کبریائی کا اعلان بھی ہے اور اس کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے ملاقات کی دعوت بھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اذان میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو شامل کیا، اور اگر کوئی شخص پوری اذان دے مگر اس میں اشہد وانا محمد رسول اللہ نہ کہے تو اذان، اذان نہ رہے گی۔ نماز صرف اللہ کے لیے ہے، لیکن اگر انسان پوری نماز پڑھے مگر درود شریف نہ پڑھے تو اس کی نماز، نماز نہ ہوگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارا ایمان اُس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل میں ہر محبت پر غالب نہ آجائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام اور اس مرتبے نے اقبالؒ کے تصور ’’محمدی‘‘ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اقبالؒ نے کہا ہے ؎

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

…٭٭٭…

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

…٭٭٭…

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب

…٭٭٭…

تازہ مرے ضمیر میں پھر معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہبی

ان تمام تصورات کا ایک ہی مفہوم ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بعد دین کا سب سے بڑا حوالہ ہیں۔ وہی ہماری تہذیب ہیں، وہی ہماری تاریخ ہیں، وہی ہمارا سب سے بڑا نمونۂ عمل ہیں، وہی ہماری دنیا ہیں، وہی شفاعت کے حوالے سے ہماری آخرت ہیں۔ چنانچہ توہینِ رسالتؐ کی ہر واردات ہمارے انفرادی اور اجتماعی وجود پر حملہ ہے۔ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت ہے تو ہم ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم ہے تو ہم ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی ہر واردات پر امتِ مسلمہ کے عوام بیدار، مضطرب اور متحرک ہوجاتے ہیں۔ کوئی نعرے لگاتا ہے، کوئی بینر بناتا ہے، کوئی مظاہرہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی روحانی، جذباتی، ذہنی اور نفسیاتی مُردنی کا یہ عالم ہے کہ ان کی بڑی تعداد اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ پر بھی آمادہ نہیں ہوتی۔ مسلم دنیا بادشاہوں، جرنیلوں اور سول حکمرانوں کی دنیا ہے۔ اس کو چلانے والے لوگوں کا یہ حال ہے کہ آپ ان کی شان میں گستاخی کا ایک لفظ بھی کہہ دیں گے تو وہ آپ کا سر قلم کردیں گے۔ یہاں تک کہ وہ سڑکوں پر لاشیں بچھا دیں گے اور آپ زن بچہ کولہو میں پلوا دیں گے۔ جمال خاشقجی سعودی عرب کا ایک صحافی تھا۔ وہ امریکہ میں مقیم تھا اور سعودی حکمرانوں کا ناقد تھا۔ اس کی تنقید ’’سیاسی‘‘ تھی۔ ’’شخصی‘‘، ’’ذاتی‘‘ یا ’’انفرادی‘‘ نہیں تھی۔ اس کے باوجود مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی عرب کے سفارت خانے بلایا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں فلش میں بہا دیا گیا۔ صدر مرسی کی حکومت آئینی بھی تھی، جمہوری بھی تھی، عوامی بھی تھی۔ مگر جنرل سیسی نے اس حکومت کو طاقت کے ذریعے اقتدار سے باہر کردیا۔ اخوان المسلمون نے اس پر عوامی احتجاج منظم کیا۔ یہ احتجاج اخوان کا سیاسی، اخلاقی، جمہوری اور عوامی حق تھا، مگر جنر ل سیسی نے مصر کے فوجیوں کو کتوں کی طرح اخوان کے کارکنوں اور حامیوں پر چھوڑ دیا۔ مصر کی فوج نے گلیوں اور شاہراہوں پر چند دن میں چھے سات ہزار لوگوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا۔ قتل ہونے والے اکثر لوگوں کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماری گئیں۔ ان پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ میاں نوازشریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو پاکستان کے دورے پر بلایا تو جماعت اسلامی نے اپنا جمہوری، سیاسی اور عوامی حق استعمال کرتے ہوئے واجپائی کے دورے کے خلاف ایک چھوٹا سا مظاہرہ کر ڈالا۔ میاں نوازشریف اور شہبازشریف اس معمولی سے ’’اختلاف‘‘ پر اتنا ناراض ہوئے کہ پنجاب پولیس نے لٹن روڈ پر جماعت اسلامی کے دفتر کو گھیر لیا۔ اُس وقت جماعت کی مرکزی قیادت وہاں موجود تھی۔ پولیس نے اتنی شیلنگ کی کہ قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے ہمیں بتایا کہ اگر شیلنگ دس پندرہ منٹ مزید جاری رہتی تو جماعت کی پوری قیادت سیکڑوں کارکنوں کے ساتھ دم گھٹنے سے جاں بحق ہوجاتی۔ ہمارے یہاں جرنیلوں کے ’’تقدس‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اُن سے اختلاف کے نتیجے میں کوئی بھی ’’لاپتا‘‘ ہوسکتا ہے۔ اب تو ملک میں قانون بن گیا ہے کہ جرنیلوں سے اختلاف کرنے والے کو دو سال کی سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ مہاتیر محمد بڑے نرم خو اور مہذب نظر آتے ہیں۔ اُن کے شاگرد انور ابراہیم نے اُن سے اختلاف کیا تو اُسے نہ صرف یہ کہ ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا گیا بلکہ اس پر ہم جنس پرست ہونے کا الزام بھی لگا دیا گیا۔ مسلم دنیا کے حکمران اپنی ذات یا بدذات کے سلسلے میں اتنے حساس اور اپنی تکریم کے تحفظ کے حوالے سے اتنے بیدار اور متحرک ہیں، مگر مغربی دنیا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو کھیل بنا لیا ہے اور مسلم دنیا کے کسی حکمران کے کان پر جوں نہین رینگتی۔ اس سلسلے میں عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی ’’بیانات‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔

فرانس میں سرکاری سطح پر توہینِ رسالتؐ کی سرپرستی ہوئی تو پاکستان میں ٹی ایل پی نے احتجاج کیا۔ اس سلسلے میں حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا معاہدہ ہوا۔ معاہدے پر عمل درآمد کا وقت آیا تو حکومت نے توقع کے عین مطابق راہِ فرار اختیار کرلی۔ چنانچہ ٹی ایل پی ایک بار پھر احتجاج پر مجبور ہوئی۔ حکومت کا فرض تھا کہ وہ ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاس داری کرتی، مگر حکومت معاہدے سے بھاگ کھڑی ہوئی اور اس نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے ڈالا، نہ صرف یہ بلکہ حکومت نے ٹی ایل پی پر دہشت گردی اور گھنائونے جرائم میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا، یہاں تک کہ اس کے احتجاج میں بھارت کا ہاتھ تلاش کرلیا گیا۔ لیکن 15 اپریل کو اصل بات وزیرداخلہ شیخ رشید کی زبان سے پھسل گئی، انہوں نے ایک ’’مدبر‘‘ کے طور پر فرمایا کہ اگر ہم فرانس کے سفیر کو نکال دیتے تو یورپی یونین میں حالات پیچیدہ ہوجاتے۔ اس پیچیدگی کی وضاحت اگلے روز مذہبی امور کے وفاقی وزیر نورالحق قادری نے تاریکی پھیلاتے ہوئے دی۔ انہوں نے فرمایا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطلب پوری یورپی برادری کو اپنے خلاف کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یورپی یونین نے پاکستان پر پابندیاں لگائیں تو ہماری برآمدات آدھی رہ جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں مسلم دنیا کے کم از کم دس سے پندرہ ملکوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔

حق و باطل کی کشمکش میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کا فیصلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر میں کردیا تھا۔ آج کی اصطلاحوں میں بات کی جائے تو غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی طاقت ایک ترقی پذیر ملک کی طاقت کی طرح تھی، اور کفار کا لشکر ترقی یافتہ ملک کی طرح تھا، مگر شہادتِ حق کا تقاضا تھا کہ مسلمان طاقت کے ہولناک عدم توازن کو نہ دیکھیں، ان سے جو بن پڑے کر گزریں۔ اقبال تو عصری دنیا کے آدمی ہیں، وہ مصورِ پاکستان بھی ہیں، مگر چونکہ ان کی فکر کی جڑیں اسلام اور اس کی عظمت و شوکت میں پیوست ہیں اس لیے انہوں نے حق و باطل کی کشمکش میں مسلمانوں کے لیے ایک واضح لائحہ عمل کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل چیز احکامِ حق اور ان کی پاسداری ہے۔ ان کی پاسداری سب سے بڑی کامیابی ہے، اور ان کی عدم پاسداری سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ان کی پاسداری سب سے بڑی فتح ہے، اور ان کی عدم پاسداری سب سے بڑی شکست ہے۔ عمران خان، شیخ رشید اور نورالحق قادری برآمدات میں کمی کا غم کررہے ہیں، اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگر احکامِ حق کی پاسداری میں پورا ملک بھی ہاتھ سے نکل جائے تو کوئی بات نہیں، کیونکہ ملک تو آنی جانی چیز ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں وجود میں آتی ہیں اور فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں، باقی رہ جانے والی چیز اللہ اور اس کے احکامات ہیں۔ اقبال نے صرف اصول ہی بیان نہیں کیا بلکہ اصول کے محرک یا اس کی بنیاد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ایک اور شعر میں فرمایا ہے:

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر

اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل چیز حکومت یا سیاست نہیں۔ اے مردِ مسلماں حکومت کا خیال چھوڑ کر دین کے حصار میں پناہ لے لے۔ ملک و دولت کی طرف مت دیکھ۔ ملک و دولت تو حرم سے وفاداری کا ایک صلہ ہیں۔ تُو حرم کا پاسدار رہے گا تو ملک و دولت تجھے پھر عطا کردیئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں اقبال کا ایک اور شعر اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاں گیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

اقبال کہہ رہے ہیں کہ اللہ کسی کو اپنا ولی یا دوست بناتا ہے تو بینک بیلنس یا درآمدات، برآمدات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایمان کی وجہ سے۔ وہ کسی کو خود اقتدار دیتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ وہ علمِ اشیا کی جہانگیری عطا کرتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا جزو ہے، مگر عمران خان، شیخ رشید اور نورالحق قادری توہینِ رسالت پر سیاست سیاست، ریاست ریاست اور برآمدات برآمدات کھیل رہے ہیں۔ وہ ایمان کو بچانے کے بجائے برآمدات کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نورالحق قادری وزیر مذہبی امور ہونے کے باوجود فرما رہے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کو نکالا تو برآمدات آدھی رہ جائیں گی، لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کررہے ہیں کہ اگر حکمرانوں نے توہینِ رسالتؐ کی واردات پر ایمان کے تقاضے پورے نہ کیے تو ان کا پورے کا پورا ایمان غائب ہوجائے گا۔ نورالحق قادری نے یہ بھی فرمایا ہے کہ توہینِ رسالتؐ پر دس سے پندرہ مسلم ملکوں کو آواز اٹھانی ہوگی۔ نورالحق قادری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سچی گواہی کا اصول تعداد نہیں۔ کوئی شخص کسی ظلم کی واردات کا عینی شاہد ہونے کے حوالے سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے دس پندرہ دوسرے عینی شاہد ظلم کے خلاف گواہی دیں پھر میں گواہی دوں گا۔ توہینِ رسالتؐ اتنی بڑی واردات ہے کہ مسلم دنیا کا ایک ملک بھی باطل کو نہ للکارے تب بھی ہم پر فرض ہے کہ ہم باطل کو للکاریں اور اپنے نبیؐ کی حرمت کا دفاع کریں۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان کے خلاف جارحیت کی تو کسی مسلم ملک نے ملاّ عمر کی حمایت نہیں کی تھی، مگر ملاّ عمر اقبال کے شعر

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

کی تصویر بن گئے۔ انہوں نے کہا کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے ہم تو امریکہ اور اس کے 50 اتحادیوں کی مزاحمت کریں گے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملاّ عمر کے اس جرأت مندانہ فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں مٹھی بھر بے وسیلہ طالبان نے وقت کی واحد سپر پاور اور اُس کے 50 اتحادیوں کو شکست ِفاش سے دوچار کردیا۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ کیا، مسلم دنیا کا کوئی حکمران اس تاریخ ساز واقعے سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔

اصل میں قصہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے۔ چنانچہ وہ ایک ہولناک ’’اعتقادی بحران‘‘ کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ضرور ہیں کہ وہ ایک خدا کو مانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ آسمانی خدا کو کم اور زمینی خدائوں کو زیادہ مانتے ہیں۔ وہ امریکہ اور یورپ سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح ڈرنے کا حق صرف خدا سے ہے۔ وہ چین اور روس سے مرعوب ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کی طاقت ان پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔ چنانچہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا طاعون پھیل رہا ہے اور اِدھر پاکستان کو بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مائل کیا جارہا ہے اور پاکستان کا حکمران طبقہ ایسا کرنے کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر پاکستان اور دیگر مسلم ملکوں کے حکمران سمجھتے ہیں کہ رزق تو امریکہ، یورپ ، روس اور چین کے ہاتھ میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فائدہ اور نقصان بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر مسلم دنیا کا حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ فائدہ اور نقصان دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ بڑی طاقت ہی اصل ہوتی تو دنیا کی کوئی بڑی طاقت کبھی فنا نہ ہوتی۔ کبھی قیصرو کسریٰ کا زوال نہ ہوتا۔ کبھی سوویت یونین ٹوٹ کر نہ بکھرتا۔ امریکہ کو کبھی مٹھی بھر طالبان سے شکست نہ ہوتی۔

پاکستان کا حال یہ ہے کہ یہاں ہر چیز نجی شعبے کے حوالے ہے۔ تعلیم نجی شعبہ دے رہا ہے، صحت کی سہولتیں نجی شعبہ مہیا کررہا ہے، افغانستان اور کشمیر میں جہاد نجی شعبے نے کیا، یہاں تک کہ توہینِ رسالتؐ پر احتجاج بھی حکمرانوں نے نجی شعبے کے حوالے کیا ہوا ہے۔ حکمرانوں میں اگر ایمان کی حرارت ہوتی اور ان میں غیرت و حمیت پائی جاتی تو وہ توہینِ رسالتؐ پر قوم کی قیادت کررہے ہوتے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے یورپی یونین کی دھمکی پر ملعونہ آسیہ کو یورپ کے حوالے کردیا، اور اب پاکستان کے حکمران توہینِ رسالتؐ پر شرمناک سیاست فرما رہے ہیں۔ اس شرمناک سیاست کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں توہینِ رسالتؐ کے حوالے سے جو قرارداد پیش کی گئی اُس پر گفتگو سے پیپلزپارٹی نے خود کو الگ کرلیا، اس نے سیشن کا بائیکاٹ کیا۔ پیپلزپارٹی قرارداد سے متعلق گفتگو میں حصہ لیتی تو وہ یا تو قرارداد کے حق میں ووٹ دیتی یا اس کے خلاف ووٹ دیتی۔ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیتی تو مغرب میں بدنام ہوتی، اور قرارداد کے خلاف ووٹ دیتی تو قوم اس کا جینا حرام کردیتی۔ چنانچہ پیپلزپارٹی نے چالاکی سے خود کو بحث ہی سے الگ کرلیا۔ مگر یہ چالاکی قوم کے ساتھ نہیں ہے، یہ اللہ اور رسولؐ کے ساتھ کی جانے والی چالاکی ہے، اور پیپلزپارٹی کو آج نہیں تو کل زمین پر نہیں تو آسمان پر اس کے مضمرات کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔

(This article was first published in Friday Special)