غزوۃ بدر کفر اور اسلام کا معرکہ

357

رمضان کریم کے دوسرے عشرے کے آخر میں سترہویں رمضان کو وہ اہم تاریخ ساز واقعہ پیش آیا جسے ہم یومِ بدر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ رمضان کریم کی برکات کے حوالے سے بہت قابلِ غور ہے۔ اسلامی تاریخ میں بدر کی حیثیت ایسی ہے جیسے نبوت کے آغاز کے وقت قرآن پاک کے نزول کی ہے۔ قرآن پاک کے نزول نے آپؐ کی نبوت کا آغاز کیا، دینِ ابراہیمی کا احیاء ہوا۔ انسانیت کے لیے پیغام رحمت آیا۔ بدر کی فتح سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اور پوری انسانیت کو یہ معلوم ہوگیا کہ اب انسانیت کا مستقبل کیا ہوگا۔ انسانوں کو اپنی حقیقی فلاح کے لیے کس دین کو اختیار کرنا ہوگا۔ انسان کا اخلاقی رویہ کن عالمگیر اصولوں کی پابندی کرے گا۔ مستقبل کا معاشی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی نظام کیا ہوگا۔ حق و انصاف کو کس طرح قائم کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے یومِ بدر تاریخ کے ایک ایسے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے نہ صرف امتِ مسلمہ کی سمت بلکہ پوری عالمی تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور تہذیب و ثقافت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
بدر کا معرکہ رمضان کی سترہویں تاریخ کو پیش آیا۔ آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ بدر کے مقام پر جو مدینہ منورہ سے تقریباً سترہ میل کے فاصلے پر تھا، تشریف لے جاتے ہیں اور پورا اہتمام فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی اس جمعیت کو جو بڑی محدود تھی، ایسے انداز میں مرتب کیا جائے کہ Strategically کم ہونے کے باوجود یہ دشمن کی کثیر تعداد پر غالب آسکیں۔ چنانچہ کوشش کی گئی کہ ایسا مقام منتخب کیا جائے جہاں پر زمین ریتیلی نہ ہو اور اس کے قریب کنواں یا چشمہ ہو، تاکہ پانی کی فراہمی منقطع نہ ہو۔ ان تمام پہلوئوں کے جائزے کے بعد جنگ کا آغاز ہوتا ہے، لیکن جنگ کا آغاز جس انداز میں ہوتا ہے وہ عجیب و غریب ہے۔ ایک طرف ایسے افراد ہیں جن کے پاس نہ عمدہ اسلحہ ہے، نہ اْن کے پاس بہترین گھوڑے ہیں، نہ اْن کے پاس بہترین زرہ ہے، نہ اْن کے پاس بہترین خود ہیں… یہ پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس اپنے رب کی محبت اور شوقِ شہادت سے سرشار پْرجوش عباداللہ کی جماعت جس میں کسی کے پاس اگر نیزہ ہے تو تلوار نہیں ہے، کسی کے پاس تلوار ہے تو ترکش نہیں ہے۔ اس بے سرو سامانی کے ساتھ اس غزوہ کا آغاز ہوتا ہے، لیکن یہی وہ غزوہ ہے جس کے حوالے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جو ارشاد فرمایا وہ ہمارے لیے قیامت تک کے لیے غور اور توجہ کا مستحق ہے۔ قرآن پاک میں یہ بات فرمائی جاتی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رب مانا۔ ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا اْن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اْس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کروگے وہ تمہاری ہوگی‘‘۔ (حم السجدہ: 30-31) نفسیاتی طور پر اہل ایمان کے اعتماد میں اضافہ ہو اور مشرکین نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں۔ بدر کے میدان میں اترنے والے تین سو سے کچھ اوپر افراد کے لیے یہ معرکہ اسلامی ریاست کی حیات و بقا سے براہِ راست وابستہ تھا، جیسا کہ خاتم النبیینؐ کی دعا میں اظہار ہوا۔ آپؐ نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ اے رب! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ضائع ہوگئی تو پھر عرصے تک اللہ کا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ ان تین سو کے لگ بھگ اہلِ حق پر وہ سکینت نازل کی گئی جو اہلِ ایمان کی کامیابی کا سبب بنی اور مہاجرین و انصار کی اس جماعت نے مشرکینِ مکہ کی تعداد کی کثرت سے بے پروا ہوکر دینِ حق کے دفاع اور تحفظ کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
رمضان کے اس دوسرے عشرے میں جو مغفرت کا عشرہ ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو اس پہلے غزوے میں یہ توفیق بخشی کہ وہ اس معرکۂ جہاد کے ذریعے ان کی ماضی کی ہر بھول چوک کو معاف کردے۔ یہ پہلا غزوہ ہے جو اس بات کا اعلان تھا کہ امتِ مسلمہ اب محض اپنی مدافعت نہیں کرے گی بلکہ وہ آگے بڑھ کر اس دین کے لیے جب ضرورت پیش آئے گی قوت کا استعمال بھی کرے گی۔ جن کو مکہ سے نکالا گیا تھا وہ اب مظلوم بن کر نہیں رہیں گے، حق کا دور آگیا اور باطل کا دور ختم ہوگیا، کیونکہ فتح آخرکار حق کی ہی ہونی تھی۔ یہ اصول بھی طے پاگیا کہ معرکۂ حق وباطل میں آئندہ فیصلے کی بنیاد کثرت یا قلتِ تعداد نہیں ہوگی۔ اگر اہلِ ایمان تعداد میں کم ہوں لیکن ایمان، عملِ صالح، عدل اور اللہ کی بندگی میں بڑھ کر ہوں تو کامیابی اہلِ ایمان ہی کا مقدر ہوگی۔ ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اْبھارو، اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے، اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے، کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔ (الانفال: 65)
رمضان کے مبارک مہینے میں اس غزوے کا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ رمضان میں قوتِ کار میں کمی ہوجاتی ہے۔ جہاد جیسے پْرمشقت مرحلے سے مسلمانوں کا کامیابی سے گزرنا ظاہر کرتا ہے کہ روزے سے قوتِ ایمانی میں اضافے کی وجہ سے جسمانی فعالیت اور قوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
یوم بدر ہر سال رمضان کی 17 تاریخ کو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص کرکے صرف اس کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو قلتِ تعداد کے باوجود وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد والے دشمن پر غالب آتے ہیں۔ اسلام تعداد سے زیادہ قوتِ کردار کو اہمیت دیتا ہے۔ اگر ایمان قوی ہو، نیت پاک ہو اور منزل کا شعور ہو تو پھر اللہ کی طرف سے غیبی امداد کا آنا یقینی ہوجاتا ہے۔ آج جب مسلمان دنیا کے بہت سے علاقوں میں اپنے آپ کو ’’اقلیت‘‘ سمجھتے ہیں اور اس بنا پر عموماً دب کر، محض بعض حقوق کی بھیک مانگنے پر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے لیے لمحۂ فکر ہے کہ اگر بدر کے موقع پر تعداد میں کم مسلمان زیادہ مسلح اور تعداد والوں پر غالب آسکتے ہیں تو آج یہ تاریخ کیوں نہیں دہرائی جاسکتی۔