روزے کے چند ضروری مسائل

335

(14)گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا اس کے ذمے باقی ہے، تو اگلا رمضان آنے سے پہلے اس کی قضا رکھے۔ تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا علی الفور واجب نہیں ہے، لیکن بلا عذر اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے کہ اگلا ماہِ رمضان شروع ہوجائے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جب کہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے حتی کہ وہ قضا روزے رکھ لے‘‘۔(مسنداحمد: 8621)
(15)جواں عمر حضرات روزے کے دوران بیوی کے ساتھ بوس وکنار سے اجتناب کریں۔ اگرچہ یہ جائز ہے، لیکن شَہوت کے غلبے کے پیش نظر روزے کے فاسد ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اس لیے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
(16)رمضان المبارک کے قضا روزوں کا کسی وقفے کے بغیر لگاتار رکھنا ضروری نہیں ہے، بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ گرمی کے روزوں کی قضا گرمی کے دنوں میں رکھی جائے، نہ یہ ضروری ہے کہ سردیوں میں قضا شدہ روزوں کی قضا سردی کے موسم میں رکھی جائے، اس میں شریعت نے وسعت اور آسانی رکھی ہے، سال کے دوران اپنی سہولت کے مطابق قضا روزے رکھ سکتے ہیں۔
(17)جس نے بشری کوتاہی کی بنا پر روزہ نہ رکھا یا رکھنے کے بعد عذر کی بنا پر توڑ دیا، اس پر صرف قضا لازم ہے، البتہ جس نے روزہ رکھ کر کسی عذر کے بغیر جان بوجھ کر توڑ دیا تو اس پر کفارہ لازم ہے۔ یہ ساٹھ روزے مسلسل اور ایک قضا کا روزہ رکھنا ہے۔
(18)غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، کسی پر بہتان لگانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، لوگوں کو ایذا پہنچانا، بیہودہ یا جنسی تَلذّذ کی باتیں کرنا عام حالات میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت وحُرمت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ اِن باتوں سے فقہی اعتبار سے تو روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا، لیکن روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور روزے دار روزے کے کامل اجر سے محروم ہوجاتا ہے۔
(19)گزشتہ چند سالوں سے ماہِ رمضان میں شدید گرمی ہوتی ہے جسے ’’Heat Stroke‘‘یا ’’Heat Wave‘‘ کا نام دیا گیا ہے، بہت زیادہ پسینہ نکلنے کی وجہ سے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جسے طبی زبان میں Dehideration کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں ایسے حالات میں جب کسی شخص کے لیے بیماری کے خطرناک بن جانے یا روزے دار کی جان تلف ہونے کا ظَنِّ غالب ہوجائے تو روزہ توڑنے یا چھوڑنے کی شرعی رخصت پر عمل واجب سمجھا جائے، کیونکہ اس کی تائید میں احادیثِ مبارَکہ، ائمۂ مجتہدین اور فقہائے امت کے اقوال موجود ہیں، ایسی صورت میں روزہ توڑنے پر صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(۱)رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے تمہارے لیے جو رخصت دی ہے، اُس رخصت پر عمل کرنا تم پر واجب ہے‘‘۔ (مسلم: 1115 )۔ (۲)’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کو قبول نہیں کیا، اُس کو میدانِ عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہوگا‘‘۔ (مسند احمد: 5392)۔ (۳)’’بے شک اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی معصیت کو ناپسند فرماتا ہے، اسی طرح اپنی دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ (مسند احمد: 5866)
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’اگر روزہ رکھنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو، تو روزہ توڑنا واجب ہے‘‘۔ (ردالمحتار، جلد6، ص:356)
علامہ علاء الدین ابوبکر کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ’’امام ابوحنیفہ سے روایت ہے: اور (عذر کی بنا پر) روزہ توڑنے کی مُطلق اباحت، بلکہ وجوب اُس صورت میں ہے کہ روزے دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو، کیونکہ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اللہ کے حق کو قائم رکھنے کے لیے نہیں جو کہ واجب ہے، اس حالت میں روزے کا وجوب باقی نہیں رہتا اور یہ حرام ہے، تو ایسی صورت میں روزہ توڑنا مباح بلکہ واجب ہوگا‘‘۔ (بدائع الصنائع، ج:2، ص: 142)