تحفظ ناموس رسالت پارلیمان میں قرارداد وزیراعظم غیر حاضر – میاں منیر احمد

358

تحریک لبیک کا الٹی میٹم، حکومت کا معاہدہ اور اب اس تنظیم کے کارکنوں کے احتجاج کے بعد ملک میں تشدد کے جو واقعات ہوئے اور جس طرح کی صورت حال سامنے آرہی ہے،وہ غم میں ڈوبی ہوئی نہایت افسوس ناک صورت حال ہے۔ ایک جانب تشدد اور دوسری جانب یہ کہا جا رہا ہے کہ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ بہرحال یہ حساس صورت حال اور بہت ہی وسیع موضوع ہے، اور جب تک اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا، کچھ لکھنا مناسب نہیں ہے، سوشل میڈیا پر انحصار کرکے رائے بنانے کا مطلب صرف تباہی ہے۔ مسئلے کے پائیدار حل کے لیے باریک بینی کے ساتھ حقائق دیکھنا ہوں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں دو روز تک سڑکوں پر پیدا ہونے والی بدامنی پر قوم سے خطاب کیا، ان کے خطاب کے تین نکات تھے: اپنی بے بسی، اپنی مظلومیت اور اپنی حکمت عملی کا ذکر۔ انہوں نے کہا کہ قوم ان پر اعتماد کرے۔ جہاں تک اعتماد کی بات ہے تو ان پر اعتماد کرنے والوں نے تین سال بہت اچھی طرح سے دیکھ لیے ہیں۔ وزیراعظم کے خطاب میں بھی ابہام تھا اور اب قرارداد میں بھی حکومت پارلیمنٹ میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں کرپائی۔ اپوزیشن کا یہ مؤقف درست ہے کہ حکومت اجلاس بلانے کے لیے سنجیدہ نہیں تھی، حالات کی وجہ سے اجلاس بلایا گیا۔ اس سے بھی بڑا سوال تو یہ ہے کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا ہے تو اس کے ساتھ بات چیت کس طرح ہورہی ہے؟ اور اگر اتفاقِ رائے کی صورت پیدا ہوئی تو عمل درآمد کیسے ہوگا؟ اگر کوئی معاہدہ کرنا پڑا تو حکومت کو پہلے اس پر سے پابندی ختم کرنا ہوگی۔ حکومت کسی بھی کالعدم تنظیم سے کس طرح معاہدہ کرے گی؟ قوم تو جاننا چاہتی تھی کہ لاہور میں کیا ہوا؟ حکومت نے پارلیمنٹ میں بات کی اور نہ وزیراعظم نے کوئی حقائق بتائے۔ یہ حکمت عملی بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ پہلے ایک تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا پھر اس سے مذاکرات کیے گئے، مگر17نومبر 2020ء کے معاہدے کو پارلیمنٹ میں نہیں لایا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے مسلم ممالک کے سربراہوں کو خطوط لکھے ہیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ کتنے مسلمان ممالک نے ان کے خطوط کا جواب دیا؟ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں تحریک لبیک کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ معاہدے کے مطابق معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا تھا، اگر آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کی رو سے اس معاہدے اور اس پر دستخط کرنے والوں سے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کا سوال اٹھایا جائے تو قانون کا جواب کیا ہوگا؟ ایسا شخص جو حکومت کی جانب سے یا اجازت سے معاہدہ کرے اور پھر عمل نہ کرے، صادق اور امین قرار پائے گا؟ آئین میں تو یہی لکھا ہے کہ عوامی نمائندگی کے لیے صادق اور امین ہونا لازمی ہے۔ ریکارڈ کی بات ہے کہ ’’گزشتہ سال حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین جو معاہدہ ہوا تھا اُس میں لکھا گیا تھا کہ حکومت معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے گی اور وہاں معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے گا۔ لیکن اگر دونوں میں سے کسی بھی فریق نے 20اپریل سے قبل کوئی یک طرفہ کارروائی کی تو معاہدہ منسوخ سمجھا جائے گا‘‘۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ 20 اپریل سے قبل ٹی ایل پی کو کس نے سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کیا، وزیراعظم کو قوم سے خطاب میں معاہدے کے نکات پر بھی بات کرنی چاہیے تھی، مگر وہ یورپ کی طاقت سے ڈراتے رہے، مجبوری بتائی کہ ملکی معیشت کمزور ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسئلے کا حل تلاش کرنے کے بجائے وہ اپوزیشن پر برسے۔ ان کے خطاب کا یہ حصہ قابلِ تعریف ہے کہ توہینِ رسالت کی اجازت نہیں دی جاسکتی، پوری مسلم دنیا اس کے لیے مل کر کام کرے گی، وہ مسلم دنیا کو اس بات پر متحرک کریں گے۔ ان کی تقریر کا یہ حصہ بہت وزنی تھا اور ہے، مگر اگلے سانس میں وہ اپوزیشن پر برس پڑے اور نام لیا کہ مسلم لیگ (ن) نے آج کی ہڑتال کی حمایت کی ہے تاکہ ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جاسکے۔ وزیراعظم کا تجزیہ اور اطلاع درست نہیں ہے۔ ملک کی ہر دینی اور سیاسی جماعت نے صورت حال پر خاموش رہ کر حکومت کو موقع دیا کہ وہ معاملہ جس طرح چاہتی ہے حل کرلے۔ کسی سیاسی جماعت نے توڑ پھوڑ کی حمایت نہیں کی، قومی جماعتوں نے اس سلسلے میں نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے قومی جماعتوں اور دینی رہنمائوں کی کانفرنس بلائی۔اگر دیکھا جائے تو قومی سیاسی جماعتوں کا حالیہ بحران پر رویہ خود عمران خان اور ان کی جماعت کے مقابلے میں نہایت ذمے دارانہ تھا۔ 2017ء میں علامہ خادم رضوی مرحوم نے جب فیض آباد میں دھرنا دیا تھا تو اُس وقت عمران خان نے اس دھرنے کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں خود اس دھرنے میں جاکر بیٹھ جاؤں۔ حزب اختلاف عمران پر الزام لگایا کرتی ہے کہ وہ کذب بیانی سے کام لیتے ہیں، بدقسمتی سے وہ اپنے طرزعمل سے ہمیشہ اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ اپوزیشن کو بلا وجہ گھسیٹ کر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ موجودہ قومی بحران کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں، یا اتنی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ اپنے مخالفین کی طرف سے محض ایک اصول کی بنیاد پر ملنے والی خاموش تائید کو اپنی قوت میں بدل سکیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسا طرزعمل اختیار کرنے والے عام طور پر ناکام رہتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا اور ٹی ایل پی کا نکتہ نظر ایک ہے مگر حکمت عملی الگ الگ ہے۔ اب اگر حکومت نکتہ نظر کی حد تک ہی سہی، ٹی ایل پی کے ساتھ ایک پیج پر ہے تو پھر پابندی کیسی؟ دستورِ پاکستان کے تابع شہریوں کو جن آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے وہ کہاں ہیں؟ جس طرح کا طرزعمل دکھایا گیا یہ اس قدر اہم سوال ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ٹی ایل پی اور حکومت کے معاملے پر فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاسکتا کہ بات ابھی رکی نہیں، گرد بیٹھ جائے گی تو منظر بھی صاف ہوجائے گا۔ سانحہ لاہور کے بعد حکومت قومی اسمبلی میں قرارداد لائی مگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جماعت پیپلزپارٹی اجلاس میں نہیں آئی، مسلم لیگ (ن) نے قرارداد پر رائے دی اور اس کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے سے متعلق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جبکہ ایوان میں اس سے متعلق اراکین نے اظہارِ خیال بھی کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں رکن اسمبلی امجد علی خان نے ناموس رسالتﷺ کی قرارداد پیش کی۔ قرارداد کے متن میں لکھا ہے کہ ایوان میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کی قرارداد پر بحث کی جائے۔ امجد علی خان نے معاملے پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست بھی کردی۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے معاملے پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی بنانے کی تحریک پیش کی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن اسمبلی مولانا اسعد محمود کا مؤقف تھا کہ ہنگامی اجلاس بلانا تھا تو اتنی زحمت بھی نہ کی کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے،آپ حکومت کے نہیں بلکہ ایوان کے اسپیکر ہیں، اسپیکر صاحب! آپ کا طرزعمل جانب دارانہ ہے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا کہ یہ قرارداد مشاورت سے لائی جانی چاہیے تھی، قرارداد پیش کردی ہے، ہم اس پر غور کرکے آئیں گے، اس معاملے پر پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے وقت مانگا کہ ہم قرارداد لے کر آئیں گے، جو قرارداد دیں گے اس پر بحث کروائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی اوراسپیکر قومی اسمبلی کے درمیان تلخ مکالمہ بھی ہوا۔ مسلم لیگ(ن) کا مؤقف تھا کہ یہ قرارداد وزیراعظم کو پیش کرنی چاہیے تھی، وزیرداخلہ، وزیر مذہبی امور سمیت دیگر وزرا ایوان میں موجود ہیں مگر کسی وزیر نے قرارداد پیش نہیں کی۔ اپوزیشن کا یہ مؤقف درست ہے کہ اہم معاملے پر بحث ہورہی ہے، وزیراعظم کہاں ہے؟

(This article was first published in Friday Special)