مودی سرکار عوامی تحفظ میں ناکام‘ بھارتی سانس کو ترس گئے

352

راستوں پر لاشیں بکھری ہیں‘ اسٹریچر اور ایمبولینسیں کم پڑ گئیں‘ آکسیجن ختم‘ ہندوؤں کی لاشیں جلانے کے لیے لکڑیاں نایاب
جنگی جنون کے حامل بھارتی وزیر اعظم کی مسلم دشمنی اور عوام پر سیاست کو ترجیح دینے کی روش ہزاروں افراد کی قاتل بن گئی‘ لاکھوں زندگیاں خطرے میں
اشرافیہ نے امداد کے بجائے ملک سے بھاگنا شروع کردیا‘ فضائی کرایوں میں اضافہ، پرائیویٹ جہازوں کے معاوضے بڑھ گئے‘ ائرلائنوں کی ٹکٹیں دستیاب نہیں

جنگوں کے شیدائی، نت نئے ہتھیار جمع کرنے کے شوقین مگر انسانیت سے عاری بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی فسطائی حکومت ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نمٹنے میں شرمناک حد تک ناکام رہی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے ماطبق بھارت میں کورونا کی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور صرف 24 گھنٹے کے دوران 3 لاکھ49ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ 2ہزار767 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق کورونا کے مریضوں کو اسپتالوں میں جگہ نہیں مل رہی اور آکسیجن کی خاص طور پر شدید کمی ہے۔
بھارت میں کورونا کی سونامی کے دوران ہیش ٹیگ ’’ہم سانس نہیں لے سکتے‘‘ بھارتی ٹویٹر پرٹرینڈ کررہا ہے اور بھارتی ٹی وی چینلوںپر اسپتالوں کی راہداریوں اور سڑکوں پرمریضوں کو چکر لگاتے دکھایا جارہا ہے جو طبی امداد کے منتظر ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر دکھایا جا رہا ہے کہ شمشان گھاٹوں میں لاشیں جلانے کی جگہ کم ہے جب کہ کئی دیگر مقامات پر تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے 24 گھنٹے لاشیں جلانے کا عمل جاری ہے۔ کچھ غیر تصدیق شدہ ودیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ سڑکوں پر یا گاڑیوں میں آکسیجن دستیاب نہ ہونے کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
بھارت میں عوام اور اپوزیشن کے علاوہ حکومتی جماعتوں سے وابستہ سیاست دانوں اور اہم شخصیات بھی کورونا کیسز پر قابو پانے میں ناکامی پرمودی حکومت کی مذمت کررہے ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ آکسیجن کی قلت اور آئی سی یو بیڈزکی کمی کے موجودہ بحران کی ذمے دار بی جے پی کی حکومت ہے ۔ ایک اور کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے دوران احساس تحفظ، سمت اور قیادت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ وزیراعظم مودی کو رونا وائرس کی صورت حال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طورپرناکام رہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں ہندو تہوار کمبھ میلے کے انعقاد کی اجازت کا فیصلہ بڑے پیمانے پرکورونا کے پھیلاؤ کا باعث ثابت ہواہے، جب کہ گزشتہ برس بی جے پی حکومت اور اس کی سرپرستی میں چلنے والی ہندو انتہا پسند جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے گزشتہ برس مسلمانوں سے مذہبی اجتماعات کے خلاف ہرزہ سرائیاں کرنے، ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے، مقامات سیل کرنے کے ساتھ نہ صرف اسلام اور مسلمان دشمنی میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمے دار بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا، بلکہ کئی افراد پر مقدمات بھی درج کیے گئے۔
مقامی بھارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال میں بڑے پیمانے پر انتخابی ریلیوں کے انعقاد کی اجازت کے فیصلے نے بھارت میں پہلے سے ہی خراب صورتحال کو مزید بدتربنادیا ہے۔ جب بی جے پی کی حکومت کو کورونا وائرس سے نمٹنے پر توجہ دینے کی ضرورت تھی، وزیر اعظم مودی انتخابی ریلیوں سے خطاب کرنے میں مصروف تھے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ بین الاقوامی پریس نے بھی کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نمٹنے میں ناکامی کے لیے مودی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ’’دی ٹائمز لندن‘‘ نے لکھا ہے کہ مودی کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ ’’دی گارڈین‘‘ نے شہ سرخی میں لکھا کہ بھارت میںنظام صحت دھڑام سے گرگیا ہے: بھارت کورونا کے جہنم میں گرتا جارہا ہے‘‘۔
دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے علاوہ خو د بھارتی میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سبب بھارت بھر میں جنگی صورت حال جیسی ایمرجنسی پیدا ہوگئی ہے۔ اب تک بھارت میں کورونا مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 70 لاکھ کے قریب ہوگئی ہے جبکہ 1 لاکھ 90 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کورونا سے ہلاکتوں کے باعث میتوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی جگہ کم پڑنے لگی ہے۔ بڑے بڑے پرائیویٹ اور سرکاری اسپتال آکسیجن کی فراہمی کے لیے دہائیاں دے رہے ہیں۔ اسپتالوں کے باہر مریضوں کی لائنیں لگی ہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران مختلف ریاستوں میں آکسیجن کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ کووڈ 19 سے شدید طور پر متاثر مریضوں کو آکسیجن پر رکھا جارہا ہے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تمام ریاستوں سے ناخوشگوار خبریں بھی آرہی ہیں۔ جہاں ایک طرف اسپتالوں میں داخل مریض آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں وہیں بھارت میں روز بروز نئے متاثرین کی تعداد کا نیا ریکارڈ قائم ہوتا جا رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق آکسیجن ختم ہونے پر اسپتالوں نے بینرز لگا دیے ہیں جبکہ لوگ سلنڈر سڑکوں پر اٹھا کر آکسیجن ماسک لگائے پڑے ہوئے ہیں۔ بھارت بھر میں لاشیں اٹھانے کے لیے گاڑیاں نہیں جبکہ جلانے کے لیے لکڑیاں نہیں مل رہی ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی کے علاوہ مغرب میں مہاراشٹر اور گجرات، شمال میں ہریانہ، اور وسطی بھارت میں مدھیہ پردیش سب کو آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے۔شمالی ریاست اتر پردیش میں، کچھ اسپتالوں نے باہر ’آکسیجن سٹاک ختم‘ کے بورڈ لگائے ہیں اور ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ میں اسپتالوں نے مریضوں کو کہیں اور منتقل ہونے کو کہا ہے۔ دہلی میں چھوٹے چھوٹے اسپتال اور نرسنگ ہوم بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ متعدد شہروں میں مایوس رشتے دار آکسیجن ریفلنگ مراکز کے باہر کھڑے ہیں۔ جنوبی شہر حیدرآباد میں ایک پلانٹ نے بھیڑ کو سنبھالنے کے لیے سیکورٹی گارڈز اور باؤنسرز کی خدمات حاصل کیں۔
ڈاکٹروں سے لے کر حکام اور صحافیوں تک جس نے بھی وبائی صورتحال کو بدلتے دیکھا ہے، انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب پہلے بھی ہوا ہے۔ 7 ماہ قبل ملک میں آکسیجن کی اسی طرح کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب کہکووڈ کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا لیکن اس بار یہ صورتحال بد ترین ہے۔
ہنگامی حالات کے پیش نظر بھارت بھر کے اسپتالوں نے اایس او ایس کے ذریعے کہا ہے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مریض دم توڑ رہے ہیں کیونکہ کووڈ-19 کیسز کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔ ایک عہدیدار کے مطابق دہلی کے جے پور گولڈن اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے راتوں رات 20 افراد کی موت ہوگئی جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں آکسیجن اور ادویات کی ترسیل کے لیے ٹرینیں اور فضائیہ تعینات کررہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بھارت میں کورونا کی ابتر صورتحال اس وائرس کے تباہ کن اثرات کی یاد دہانی کراتی ہے۔
دارالحکومت نئی دہلی کے اسپتالوں کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے کی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہولی فیملی اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے تمام یونٹ بھر چکے ہیں اور مزید کسی مریض کی گنجائش نہیں اور ہر اسپتال میں صورتحال نازک ہے۔ اگر آکسیجن ختم ہو گئی تو کئی مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مریض چند منٹوں ہی میں مر جائیں گے۔ بھارت میں جاری قیامت خیز صورت حال پر کئی ممالک کی جانب سے بھارت کو مدد کی پیش کش کی گئی ہے جب کہ کئی ممالک نے بھارت سے آنے والوں پر پابندی عائد کردی ہے اور پروازوں کی تعداد محدود کرنے کے علاوہ کچھ ممالک نے پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں جب کچھ ریاستوں میں انتخابات شروع ہونے والے تھے، بھارتی حکومت نے اعلان کردیا تھا کہ اس نے کورونا وائرس کو شکست دے دی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت خوب سیاست سیاست کھیلتی رہی اور اسی دوران ہندوؤں کو کمبھ میلے کی بھی اجازت دے دی گئی، جس کے نتائج آج دنیا دیکھ رہی ہے۔کورونا وائرس کا ایک نیا طوفان شروع ہوا جو نئی شکلوں میں سامنے آیا آج بھارت میں سانسوں کی جنگ جاری ہے۔ رواں برس مارچ کے اوائل ہی میں بھارتی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کردیا تھا کہ ملک میں عالمی وبا کووڈ 19 کا کھیل ختم ہوگیا، اور وقت نے یہ ثابت کردیا کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت اور اس کے وزرا کے اعداد و شمار سمیت تمام دعوے لاعلمی اور غلط معلومات پر مبنی رہے ہیں۔ سیاستدانوں، پالیسی سازوں اور میڈیا کے کچھ حکومت نواز عناصر نے یہ خیال ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ بھارت واقعی اس وبائی دلدل سے باہر نکل آيا ہے۔ بھارتی مرکزی بینک کے عہدیداروں نے اعلان کیا کہ بھارت نے کووڈ انفیکشن کو موڑ دیا ہے یہاں تک کہ مودی کو ویکسین گورو کہا جانے لگا۔
اسی دوران فروری کے آخر میں بھارتی الیکشن کمیشن نے 5 ریاستوں میں انتخابات کا اعلان کیا، جہاں 18 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ ووٹرز 824 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔27 مارچ سے شروع ہوکر یہ انتخابات ایک ماہ تک جاری رہنے والے تھے اور ریاست مغربی بنگال کے معاملے میں ووٹنگ 8 مراحل میں ہونا قرار پائی۔ بغیر کسی حفاظتی پروٹوکول اور معاشرتی دوری کے انتخابی مہم زور و شور سے شروع ہوئی۔ مارچ کے وسط میں کرکٹ بورڈ نے گجرات کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں بھارت اور انگلینڈ کے مابین 2 بین الاقوامی کرکٹ میچز دیکھنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کو اجازت دے دی۔ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں چیزیں الٹنا شروع ہوگئیں اور بھارت وائرس کی تباہ کن دوسری لہر کی لپیٹ میں تھا جب کہ متعدد شہروں کو تازہ لاک ڈاؤن کا سامنا تھا۔
اپریل کے وسط تک ملک میں اوسطاً ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ کیسز آنے لگے۔ گزشتہ اتوار ہی کے دن بھارت میں 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 1600 سے زیادہ افرادہ ہلاک ہو گئے۔ یہ ایک دن میں سب سے زیادہ کے نقصان کے ریکارڈ تھے۔دی لینسیٹ کووڈ 19 کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر انفیکشن کی یہ رفتار نہ روکی گئی تو جون کے پہلے ہفتے تک بھارت میں روزانہ 2300 سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوسکتی ہیں۔ بھارت اس وقت صحت عامہ کی ایمرجنسی کی گرفت میں ہے۔ سوشل میڈیا ایسی وڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ ان میں قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں کووڈ سے مرنے والوں کی آخری رسومات کے لیے بھیڑ، اسپتالوں کے باہر مرنے والوں کے غمزدہ لواحقین، سانس لینے کے لیے بے چين مریضوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کی لمبی قطاریں اور لاشوں سے بھرے مردہ خانے نظر آتے ہیں۔یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اسپتالوں میں اور راہداریوں پر مریضوں کی بھیڑ ہے اور کبھی کبھی ایک ہی بستر پر دو، دو مریض نظر آرہے ہیں۔اسپتالوں میں بیڈ، ادویات، آکسیجن اور ضروری ٹیسٹوں کے لیے کی جانے والی فون کالز کی بھرمار ہے۔ دوائیں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں، اور ٹیسٹ کے نتائج میں کئی دن لگ رہے ہیں۔ انتہائی نگہداشت کے باہر بیٹھی ایک غم سے نڈھال والدہ ایک وڈیو میں یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ’’انہوں نے مجھے کئی گھنٹے تک یہ بھی نہیں بتایا کہ میرا بچہ مر گیا ہے‘‘۔ انتہائی نگہداشت سے باہر کسی دوسرے شخص کی آہ و بکا وہاں کی خاموشیوں کو توڑ دیتی ہے۔

موجودہ صورت حال کے ساتھ ہی بھارت کے وسیع ویکسی نیشن پروگرام کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ شروع میں ملک میں بنائی جانے والی ایک ویکسین کی افادیت کے بارے میں تنازع کھڑا ہو گیا جس سے اس کی پیداوار میں رخنہ پڑا یہاں تک کہ جب ویکسین دینے کی مہم کو بڑھاوا دیا گیا اور گزشتہ ہفتے تک 10 کروڑ سے زائد خوراکیں دی گئیں تو اس کی قلت بتائی جانے لگی۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، جو ملک اور دنیا کی سب سے بڑی ویکسین ساز کمپنی ہے، نے کہا ہے کہ وہ جون سے قبل سپلائی نہیں بڑھا سکتے کیونکہ اس کے پاس صلاحیت بڑھانے کے لیے وافر رقم نہیں ہے۔ حکومت نے آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کورونا وائرس ویکسین کی تمام برآمدات پر عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے کیونکہ فوری طور پر ملک میں ان خوراکوں کی ضرورت تھی اور ساتھ ہی اس نے غیر ملکی ویکسینز کی درآمد کی اجازت بھی دے دی۔ طلب میں اضافے کو پورا کرنے کے لیے اب آکسیجن کی درآمد کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے بھارت میں آنے والی انفیکشن کی دوسری لہر پر کوئی دھیان ہی نہیں دیا۔فروری کے وسط میں انڈین ایکسپریس اخبار کی ایک صحافی تبسم برناگر والا نے مہاراشٹرا کے کچھ حصوں میں نئے کیسز میں 7 گنا اضافے پر خطرے کی گھنٹی بجائی۔ مہاراشٹر کے ایک متاثرہ ضلع کے سرجن ڈاکٹر شیام سندر نکم نے اس وقت کہا تھا کہ ہمیں واقعی نہیں معلوم کہ کیسز میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پورا کا پورا کنبہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہ بالکل نیا رجحان ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوجوانوں کی آبادی، وبا سے دیسی مدافعت، اور بڑی حد تک دیہی آبادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت نےوائرس پر فتح کا اعلان کر دیا تھا جو کہ قبل از وقت ثابت ہوا۔ بلومبرگ کے ایک کالم نویس مہر شرما نے کہا ہے کہ جیسا کہ بھارت میں عام ہے، سرکار کا کبر، جنون زدہ قوم پرستی، پاپولزم اور بیوروکریٹک نااہلی ان سب نے مل کر یہ بحران پیدا کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں جاری دوسری لہر کی وجہ عوام کی جانب سے احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر شادیوں اور سماجی اجتماعات میں شرکت اور حکومت کی طرف سے سیاسی جلسوں اور مذہبی اجتماعات کی اجازت جیسی مختلف چیزیں شامل ہیں۔ انفیکشن میں کمی کے ساتھ لوگوں نے ویکسی نیشن میں کم دلچسپی دکھانی شروع کردی اور اس طرح جولائی کے اختتام تک 25 کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف سست روی کا شکار ہو گیا۔ فروری کے وسط میں مشیگن یونیورسٹی کے ایک ماہر حیاتیات بھرمار مکھرجی نے ٹویٹ کیا کہ بھارت میں جب تک کم کیسز ہیں، اسے اپنی ویکسی نیشن مہم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ کسی نے ان کے مشورے پر توجہ ہی نہیں دی۔
بھارتی عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ آکسیجن کے بحران کو حل کرنے کے لیے قومی کووڈ منصوبہ بنائے۔ وفاقی وزارت صحت نے پچھلے سال اکتوبر میں نئے آکسیجن پلانٹوں کے لیے بولیاں طلب کی تھیں جب بھارت میں وبائی مرض کے آغاز کو بھی 8 ماہ گزر چکے تھے۔ وزارت نے کہا ہے کہ منظور شدہ 162 میں سے اب تک صرف 33 پلانٹ لگ سکے ہیں، مزید 59 پلانٹ اپریل کے آخر تک اور 80 مئی کے آخر تک انسٹال کیے جائیں گے۔ اس افراتفری میں یہ سپلائی پوائنٹس اس لیے بڑھائے جا رہے ہیں کہ اب تک کوئی ایمرجنسی منصوبہ تھا ہی نہیں۔
آکسیجن کی قلت کے بحران سے پہلے، وفاقی حکومت کو انتخابی جلسوں اور بڑے پیمانے پر ہندو تہوار کی اجازت دینے، اور ویکسی نیشن مہم کو تیزی سے وسعت دینے میں ناکام ہونے پر پہلے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ناقدین نے متعدد ریاستی حکومتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے تباہ کن دوسری لہر کی تیاری کے لیے بہت کم تیاری کی۔ ڈاکٹروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ آکسیجن کی کمی بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی محض ایک علامت ہے۔ حفاظتی پروٹوکول اور مضبوط عوامی پیغام رسانی سے زیادہ لوگوں کو گھر میں رکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ وائرس بے قابو ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے ہزاروں شہریوں کے ہلاک ہونے اور لاکھوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہونے کے بعد اعتراف کرلیا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم سائنسی ماہرین کے مشوروں کو ترجیح دیتے ہوئے اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ اپنی نااہلی اور غیر ذمے داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خطاب میں مودی نے کہا کہ کورونا وبا ہم سب کے صبر اور برداشت کا امتحان لے رہی ہے۔حکومت ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے ارو ریاستی حکومتیں بھی اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین کے بارے میں کسی طرح کی افواہیں مت پھیلائیں۔یکم مئی سے کورونا ویکسین 18 سال سے زیادہ عمر کے ہر ایک شہری کے لیے دستیاب ہو گی۔
اس ہنگامہ خیز اور قیامت صغریٰ جیسی صورت حال کے دوران ایک افسوس ناک پہلو اور سامنے آیا ہے کہ بھارت میں امیر طبقے نے کورونا وبا کی دوسری لہر کی ہلاکت خیزیوں سے جان بچانے کے لیے ملک سے راہ فرار اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ ایسے موقع پر جب ہم وطنوں کو قوم اور دیگر امداد سمیت کئی طرح کے تعاون کی ضرورت ہے، بھارتی اشرافیہ نے اپنی بقا کے لیے ملک سے بھاگ جانے کو ترجیح دی ہے۔ کورونا وائرس میں خطرناک اضافے کے بعد بھارتیوں کی بڑی تعداد میں ملک سے باہر نکلنے کی دوڑ شروع ہو گئی ہے۔ اس دوڑ میں چونکہ امیر افراد شامل ہیں اس لیے جہاں ایک جانب فضائی کرایوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو وہیں دوسری جانب پرائیویٹ جہازوں کے کرایوں میں بھی ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھارت سے آنے والی پروازوں پر پابندی کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق گزشتہ روز 25 اپریل سے ہوگیا۔ اس سے ایک روز قبل ہی (جمعہ اور ہفتہ کو) ممبئی سے دبئی جانے والی پروازوں کا یک طرفہ کرایہ ایک ہزار ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جو عام قیمت سے 10 گنا زائد ہے جب کہ دہلی سے دبئی جانے والی پرواز کا کرایہ 50 ہزار بھارتی روپیوں سے زیادہ ہے، جو عام قیمت سے 5گنا ہ، تاہم اتوار کے لیے کوئی ائر لائن ٹکٹ فراہم نہیں کر رہی تھی کیوں کہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس دن سے فلائٹ آپریشن 10 دن کے لیے معطل کر دیے جائیں گے۔اس صورتحال میں پرائیویٹ جیٹ میں لوگوں کی دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایئر چارٹر سروس انڈیا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی چارٹر سروس کی ہفتے کو 12 پروازیں دبئی جا رہی ہیں جس میں تمام سیٹیں بک ہوئی ہیں۔ایک اور چارٹر کمپنی اینتھرال ایوی ایشن کے ترجمان نے بتایا ہے کہ طلب کو پوار کرنے کے لیے مزید جہازوں کی درخواست کی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق ممبئی سے دبئی جانے کے لیے 13 سیٹوں پر مشتمل جیٹ کی قیمت 38 ہزار ڈالر ہے جب کہ چھ سیٹوں پر مشتمل جہاز کا کرایہ 31 ہزار ڈالر ہے۔