رمضان کے بعد روزوں کے اثرات نظر نہ آنے کا سبب دنیاوی فوائد کا حاوی ہونا ہے

214

کراچی (رپورٹ:خالد مخدومی)روزوں کو اس کی اصل روح کے مطابق نہ رکھاجائے تو 30دن گزرنے کے بعد انسان میں کوئی تبدیلی نہں آئے گی،روزے کو اس کے اصل اصول سے ہٹ کر ایک دکھاوے کی عبادت بنا دیا گیا ہے، ہمارے روزے بالکل بے اثر ہو کر رہ گئے ہیں،عبادتیں بے مقصدیت کا شکار ہوچکی ہیں، عبادتیں ہماری اپنی تطہیر اور صفائی کے لیے ہوتی ہیں کھانے پینے سے اجتناب کا نام روزہ نہیں۔ان خیالات کا اظہار،جمعیت اتحادالعمائے پاکستان کراچی کے سربراہ مولانا عبدالوحید خان ،ممتاز عالم دین اور دینی رسالے الواقعہ کے مدیر مولانا ابو عمار سلیم اور شیخ الحدیث حبیب اللہ القاسمی نے جسارت کی جانب سے کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا ، علمائے کرام سے سوال کیا گیا تھا کہ 30 روزوں کا تربیتی کورس بھی ہماری زندگی کو کیوں بدل نہیں پاتا؟جمعیت اتحادالعمائے پاکستان کراچی کے سربراہ مولانا عبدالوحید خان نے کہاکہ روزے کی روح اوربنیاد تقویٰ ہے اللہ کا فرمان ہے اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے، اب اللہ کا ڈر اسی وقت پید اہو گا جب ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزے ایمان اور احتساب کے لیے رکھے جائیں، احتساب کے معنی یہ ہیںا نسان اس بات کا جائزہ لیتا رہے کہ اس سے کوئی غلط کام سرزد نہ ہو ،کوئی ایساکام جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہواب اگر انسان 30 دن اس بات پرعمل کرتا ہے تووہ اس کی عبادت ثانیہ بن جاتی ہے اور پھررمضان کے بعد وہ کوئی ایسا کام نہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیاہو۔انکا مزیدکہنا تھا کہ اگر روزوں کو اس کی اصل روح کے مطابق نہ رکھاجائے اور خالی بھوکا پیاسا رہاجائے تو 30 دن گزرنے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیںآئے گی ۔ممتاز عالم دین اور دینی رسالے الواقعہ کے مدیر مولانا ابو عمار سلیم نے کہاکہ روزے سمیت تمام عبادتیں یقیناً اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہیں مگر ایک ایسی عبادت جو انسان کو نکھار کر ایسا کر دے کہ جیسے سونا کندن بن جائے تو وہ ہے روزہ۔مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج ہم لوگوں نے روزے کو اس کے اصل اصول سے ہٹ کر ایک دکھاوے کی عبادت بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے روزے بالکل بے اثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ہم پورے رمضان کے روزے رکھتے ہیں مگر نہ تو ہمیں ان روزوں سے کوئی جسمانی فوائد مل رہے ہیں نہ روحانی ترقی ہو رہی ہے اور نہ ہی معاشرتی برائیوں اور گھناؤنے اعمال سے نجات مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم روزے کے ساتھ شیطان کے دامن میں بھی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کاروبار میں جھوٹ اور بے ایمانی بھی کرتے ہیں، چغلی اور رشوت و دھوکا دہی کا کاروبار بھی پورے زور و شور سے چلتا رہتاہے۔ مساجد میں حاضری بھی رہے گی قرآن بھی سنا اور سنایا جائے گا۔ تلاوت بھی زور و شور سے جاری رہے گی اور پورا رمضان اسی طرح بازاری اور عبادتی سرگرمیوں اور گہما گہمی میں گزر جائے گا۔ مگر کیا رمضان کے ختم ہو جانے کے بعد ہمارا نفس صاف ستھرا اور روشن ہوجائے گا ؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا جواب نفی میں ہے، ہماری عبادتوں سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ہماری عبادتیں ہماری اپنی تطہیر اور صفائی کے لیے ہوتی ہیں۔ ہمارے آقائے نامدار حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کی انتھک اور انتہائی کوششوں سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو آ پ ؐنے انہیں اسلامی تعلیمات دیں ، انہیں عبادات پر اس طرح لگا دیا کہ وہ اس کی روح کو سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ لوگوں کے اوپر پہرے تو نہیں بٹھائے ۔ یہی تطہیر تھی جو آپ ؐنے خود انجام دی اور اپنے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے کروائی۔ یوں لوگوں کے دلوں میں اللہ کی خشیت پیدا ہوئی اور تاریخ گواہ ہے کہ وہی وحشی، جنگلی اور اجڈ کہلانے والے عرب ایک ایسا معاشرہ لے کر اٹھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے پوری دنیا کو ان تابندہ اعمال اور روایات سے ایسا منور کر دیا کہ جو اس کو سمجھ گیا وہ اس سے دور نہیں رہا، یہی مسلمان تھے کہ جب دشمن کے سامنے انتہائی قلیل تعداد میں اپنے ناکافی ہتھیار کے ساتھ جاکر کھڑے ہوتے تو اللہ ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیج دیتا۔ کتنے ہی معرکے ایسے ہیں جو مسلمان مجاہدوں نے سر انجام دیے اور ان میں فتح حاصل کی کہ آج بھی مغرب ان پر حیرت زدہ ہے یہی مسلمان تھے کہ جب وہ کھڑے ہوکر اجتماعی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو ان کی دعا فوراً قبول ہوتی۔ انہوں نے مزید کہاکہ آج ہم عبادتیں بھی کرتے ہیں مگر ان میں کوئی روح نہیں ہے۔ نماز پڑھتے ہیں مگر برائیوں سے دور نہیں ہوتے زکوٰۃ دیتے ہوئے جان جاتی ہے اور اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں مگر وہ بھی صرف دکھائوے کے۔ کھانے پینے سے اجتناب کا نام روزہ نہیں۔ اگر اللہ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل نہ کریں تو یہ روزہ کسی فائدے کی تو راہ نہیں دکھائے گا۔ نہ ہم خود انفرادی طور پر درست ہوں گے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ کسی طور درست ہوگا۔ جو بد اعمالی، نا انصافی اور دیگر سماجی برائیاں ہیں وہ اپنی جگہ پھلتی پھولتی رہیں گی۔ ممتاز عالم دین شیخ الحدیث حبیب اللہ القاسمی کے مطابق بات صرف روزے کی نہیں ہم نماز پڑھتے ہیں، ،زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ذکرکا اہتمام کرتے ہیں، قربانی کرتے ہیں،لیکن ان تمام عبادات کے ہم پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہو پاتے ان کا کہنا تھاکہ حقیقت یہ کہ خشیت الہیہ کے ساتھ کی جانے والی عبادتیں نہایت گہرا اثر رکھتی ہیں، اللہ پاک کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں، وہ تو ہماری بھلائی چاہتا تھا ،اسی لیے اس نے ہم پر کچھ عبادتیں لازم کیں اور کچھ عبادتیں اختیاری رکھیں، تاکہ ان کا ہماری زندگی پر اثر ظاہر ہو۔نماز کے بارے میں اللہ تعالی نے سورۃ العکنبوت میںفرمایااور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ گویا کہ نماز کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر طرح کی بے حیائی اور بْری باتوں سے رک جائے۔اسی طرٖح روزے کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ۔مقصد کیا ہے؟ تاکہ تمہارے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے ، تقویٰ کی صفت پیدا ہوجائے۔ گویا کہ روزے کی فرضیت اس لیے ہوئی ہے تاکہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے اندر اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا ہوجائے۔روزے کے اثرات کاماہ رمضان کے بعد نظر نہ آنے کی وجہ دنیا میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ ہر چیز میں اپنا مفاد دیکھنا ،دنیا کو حاصل کرنے میں رات دن ایک کرنا اور آخرت سے بے پروا ہوجانا ، یہ بڑا خطرناک مسئلہ ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ ‘‘دو بھوکے بھیڑیے بکر ی کے ریوڑ میں چھوڑے جائیں تو وہ جتنا بکریوں کو نقصان پہنچائیں گے اس سے کہیں زیادہ مال اور عہدے کی لالچ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے‘‘اسی طرح ہم ماہ رمضان میں تو قران سے تعلق رکھتے ہیں مگر رمضان گزرتے ہی قرآن سے بے توجہی برتنا شروع کردی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے رمضان کے دوران کی جانے والی عبادات اپنے اثرات کھونا شروع کردیتی ہیں۔