دِل کا شہنشاہ

181

” انکل یہ کلپس کتنے کی ہیں….؟”
“بیس روپے کی ایک ہے بیٹا….”
میں امی کی طرف پلٹی۔
“سمامہ میں تو یہ پچاس کی ایک دے رہے تھے یہاں تو سستی ہیں.. لے لیتے ہیں امی”
یہ دوپہر کا وقت تھا اور سورج آسمان کے وسط میں چمک رہا تھا۔ کچھ ضروری کاموں سے امی کے ساتھ میمن فاؤنڈیشن جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ جگہ جہاں سے بہت کچھ سیکھا ہواور بہت ساری یادیں وابستہ ہوں۔ ہمیشہ کی طرح آ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ یہاں میمن فاؤنڈیشن کی بلڈنگ کے ساتھ ہی پوری گلی میں مارکیٹ بنی ہوئی ہے جہاں سستی چیزیں ملنے کے علاوہ بہت ساری ضرورت کی چیزیں بھی آرام سے مل جاتی ہیں۔
جس کام کے لیے آئے تھے وہ ہوگیا تھا۔ اور واپسی کے لیے رکشہ تلاش تھی تب مجھے قطار میں لگے ہوئے دوسرے بہت سے اسٹالز کے ساتھ وہ اسٹال بھی نظر آیا۔
پیوند لگا ہوا لباس پہنے۔ ٹوٹی ہوئی چپلوں کے ساتھ۔ سفید بال۔ چہرے پر لاتعداد جھریاں۔ آنکھوں میں صدیوں کی تھکن لیے وہ بابا اپنے اسٹال پر چیزیں ترتیب دے رہے تھے۔ ان کے کام کرنے کے انداز میں نا معلوم سا وقار نظر آرہا تھا۔ مجھے ہئیر کلپس کی ضرورت تھی سو ہم ان کے اسٹال کی طرف بڑھ گئے تھے ۔
” اور بھی کچھ چاہیے ہو تو لے لو بیٹا.. پیسے میں مناسب بتاؤں گا۔ اس کی فکر مت کرنا۔” ان کا لہجہ شفقت بھرا تھا۔
خریداری کرکے جو رقم مکمل بنی۔ وہ امی نے انہیں دے دی۔ کچھ بقایا پیسے واپس آنے تھے۔ امی نے ان سے کہا کہ آپ رکھ لیں۔
تب میں نے، امی نے، ہواؤں نے چمکتی ہوئی دھوپ کی کرنوں نے… دور اوپر آسمان نے بہت عجیب منظر دیکھا۔
چھوٹے سے اسٹال کے مالک اس انسان کا چہرہ تن گیا تھا۔
” نہیں میری بہن.. یہ گناہ مجھ سے مت کرواؤ… میں حلال کماتا ہوں….”
شہادت کی انگلی سے نفی میں اشارہ کرتے انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے۔
“بلکہ رکو….. یہ میری بیٹی ہے…” انکا اشارہ میری طرف تھا۔ بولتے ہوئے انہوں نے اسٹال پرکسی باکس میں سے ایک کلپ نکالی تھی۔ “یہ میرا تحفہ رکھ لو… بیٹی کے لیے… ” وہ اب کلپ ہاتھ میں تھامے امی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
” نہیں بابا.. آپ اپنا نقصان کیوں کرتے ہیں… ”
” کیسا نقصان.. اللہ برکت دے گا.. وہ برکت دینے والا ہے…..” امی کی بات کے جواب میں اب ان کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی تھی۔
انہوں نے ہمیں لا جواب کردیا تھا۔
دل کے شہنشاہ… اس اعلیٰ ظرف اور خود دار انسان سے وہ تحفہ لے کر ہم واپس ہوئے تھے، جس کا اسٹال چھوٹا سا تھا… جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے… جس کے پاس دنیاوی ساز و سامان میں سے بہت کم تھا.. لیکن اس کا یقین ساری کائنات کے خزانے سے زیادہ بھاری تھا
یہ وہ لوگ ہیں جو اس دھرتی کا فخر ہیں…. یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے رب کائنات کا جلال گناہوں میں ڈوبی اس سر زمین کے لوگوں پر کم ہوجایا کرتا ہے… یہ وہ لوگ ہیں جو قیمتی خزانہ ہیں اس زمین کے لیے
آپ کو اپنے آس پاس ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جن کی خود داری اور عزت نفس انہیں اپنی مشکلات کا اشتہار لگانے کی اجازت نہیں دیتی..
ان کا بھرم قائم رکھنے میں ان کی مدد کریں…
ان سے چیزوں کو خرید لیا کریں… امپورٹڈ چیزیں نہ خرید کر آپ کی شان ہرگز کم نہیں ہوگی.. اپنے ارد گرد انہیں تلاش ضرور کیا کریں اور اپنا مال ان پر خرچ کرنے کی کوشش کیا کریں۔