غربت اور بھوک کا مسئلہ

517

پی ٹی آئی کے ایک دوست کا کہنا تھا کہ عمران حکومت کو جتنا غربت اور بھوک کا احساس ہے اتنا شاید اس سے پہلے کسی حکومت کو نہ تھا بلکہ اس کے برعکس وہ لوٹ کھسوٹ میں لگی ہوئی تھیں اور عوام کی غربت میں مزید اضافہ کررہی تھیں۔ یہ پہلی حکومت ہے جسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ملک میں کوئی شخص غربت کی وجہ سے بھوکا نہ سونے پائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے جگہ جگہ لنگر خانے قائم کردیے ہیں جہاں بھوکوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔ اب ایک نیا پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت بھوکے خاندانوں کو ان کی دہلیز پر پکا پکایا کھانا فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت نے اُن لوگوں کو پناہ گاہیں فراہم کی ہیں جن کے پاس سر چھپانے کو کوئی ٹھکانا نہ تھا اور وہ رات کو فٹ پاتھ پر سوتے تھے۔ اِس دوست نے حکومت کے دیگر فلاحی پروگراموں پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ حکومت غریب خاندانوں کو کفالت پروگرام کے تحت مالی سپورٹ فراہم کررہی ہے اور احساس پروگرام کے تحت ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات میں بھی معاونت کررہی ہے۔ اس سلسلے میں ملک گیر سروے کرایا گیا ہے تا کہ جو بھی امداد فراہم کی جارہی ہے وہ مستحق خاندانوں تک ہی پہنچے اور غیر مستحق اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں، جب کہ اس سے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی تھی اور گریڈ 17 اور 18 کے سرکاری ملازمین تک اس سے فائدہ اٹھارہے تھے۔ عمران حکومت نے اِس کرپشن کا خاتمہ کرکے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو کفالت پروگرام میں ضم کردیا ہے۔ ہمارے دوست نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان بھوک اور غربت کو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی جدوجہد کررہے ہیں اور اس کے نتائج کھلی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہم نے اپنے دوست سے کہا کہ اس کی باتیں سر آنکھوں پر لیکن وہ ہمیں یہ بتائے کہ ملک کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے اور ایک سروے کے مطابق ملک کی 40 فی صد آباد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یعنی اسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس 40 فی صد آبادی کی ضروریات پوری کرسکے۔ عمران حکومت جن لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کا چرچا کرتی ہے وہ چند شہروں تک محدود ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے والوں میں بھی وہ لوگ شامل ہیں جو پیشہ ور ہیں اور ان کا کام ہی ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے۔ مستحق اور ضرورت مند تو ان لنگر خانوں اور پناہ گاہوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ یہ چیزیں تو محض ہنگامی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں۔ یہ بھوک، غربت اور بے گھری کا مستقل حل نہیں ہیں۔ اس طرح کفالت پروگرام کو بھی غربت ختم کرنے کا موثر حل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اصل چیز تو معیشت کی بحالی، روزگار کی فراہمی اور مہنگائی کا خاتمہ ہے جس کے اثرات یکساں طور پر پوری آبادی تک پہنچتے ہیں اور وہ مفلوک الحال سفید پوش طبقہ جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا، وہ بھی اس ’’تبدیلی‘‘ سے مستفید ہوتا ہے۔ اور یہی وہ ’’تبدیلی‘‘ ہے جس کی عوام عمران حکومت سے توقع کررہے تھے۔ عمران خان نے جب اقتدار سنبھالتے وقت یہ کہا تھا کہ وہ خودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو عوام آنکھوں میں امید کی لو جگمگانے لگی تھی کہ یہ آدمی کچھ کر گزرے گا اور حکومت میں سادگی اور کفایت شعاری کو بنیاد بنا کر انقلابی تبدیلی لے آئے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس نے حکومت سازی ہی میں وزیروں، مشیروں، معاونین کی بھرمار کردی اور حکومت کی کشتی میں اتنے لوگ بٹھالیے کہ وہ عین منجھدار میں ڈولنے لگی۔ پھر وہ اپنے دعوے کے برعکس آئی ایم ایف کے آگے سجدہ ریز ہوگیا اور ملک کی پوری معیشت حتیٰ کہ قومی خزانہ (اسٹیٹ بینک) بھی اس کے حوالے کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ عالمی مہاجن (آئی ایم ایف) جس ملک میں بھی گیا ہے اس نے اسے قرضوں میں جکڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ وہ عوام کی حالت بہتر بنانے کے بجائے ان کا خون نچوڑنے پر یقین رکھتا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں ہورہا ہے۔ آئے دن آئی ایم ایف کی ہدایت پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک سیلاب ہے جو بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس مہنگائی نے عوام کا گلا دبا رکھا ہے وہ چیخ رہے ہیں اور حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ وہ اب تک تین وزیر خزانہ تبدیل کرچکی ہے اور اب چوتھا وزیر خزانہ لگایا گیا ہے کہ شاید وہ مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈال دے لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ اس گھوڑے کی لگام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے اور آئی ایم ایف اس کی منہ زوری کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ہمارے بہی خواہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں معیشت کی بحالی آئی ایم ایف کی رخصتی اور سود کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سود نے پوری معیشت کو آسیب کی طرح جکڑ رکھا ہے۔ یہ پاکستان پر اللہ کی ناراضی کا سبب بھی بن رہا ہے کہ اللہ کی کتاب نے سود کو قطعی حرام قرار دیا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے اس حرمت کی سنگینی کو مختلف مثالوں سے واضح کیا ہے۔ عمران حکومت اگر ریاست مدینہ کو اپنا ماڈل قرار دیتی ہے تو اسے سود کو پاکستانی معیشت سے نکالنا ہوگا اور آئی ایم ایف کو پاکستان سے رخصت کرنا ہوگا کہ اس کے بغیر نہ ملک سے غربت دور ہوسکتی ہے نہ بھوک ختم ہوسکتی ہے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟۔ اس کے لیے پختہ عزم، نیک نیتی اور اخلاص بنیادی شرط ہے، اگر حکومت میں یہ جوہر موجود ہو تو راستے خود بخود بنتے چلے جائیں گے ورنہ ہم ہمیشہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔