!میری عدالت میری مرضی

388

عدالت عظمیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریماکس دیے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قبل از گرفتاری کی ضمانت برسوں پر محیط ہوتی ہے۔ ہماری عدلیہ کو ایسے بہت سے اعزازات حاصل ہیں جو اسے دنیا کی تمام عدالتوں سے منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔ مثلاً دنیا کی کوئی بھی عدالت ثبوت کے بغیر کسی بھی مقدمے کی سماعت نہیں کرتی۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لے کر تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی کہ کسی مقدمے کی سماعت سے قبل اس کی صداقت کی تصدیق کی جائے اگر درخواست گزار کی شکایت درست پائی جائے تو دوسرے فریق کو طلب کیا جائے۔ بصورت دیگر مقدمہ خارج کردیا جائے۔ بغیر ثبوت کے سماعت کرنا انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدلیہ کو بے توقیر اور اس کی حرمت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ کسی کی جھوٹی درخواست کی سماعت سے دوسرے فریق کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے وہ معاشرے کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ کسی شناسا سے آنکھ بھی نہیں ملا سکتا۔
یہ کیسی بد نصیبی ہے؟ کیسا اذیت ناک المیہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں ایسے مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں ہمارے نظام عدل کا کوئی میکنزم ہی نہیں۔ جج اور جسٹس صاحبان قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے ’’میری عدالت میری مرضی‘‘ کے اصول پر کارفرما ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بہاولپور کی سول عدالت کی جج صاحبہ نے ایک مقدمے کے فیصلے میں تحریر فرمایا کہ جس مکان کو خریدنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ فروخت کرنے والے کی ملکیت ہی نہیں ہے۔ تمام ثبوتوں اور شہادتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں مدعی نے سیشن کورٹ کے زنجیر ہلا دی۔ اور سیشن جج نے فیصلے کو قانونی تقاضوں کے منافی قرار دے کر واپس سول کورٹ کو نظر ثانی کے لیے بھیج دیا۔ مذکورہ مقدمہ گیارہ برس سے زیر سماعت ہے یہ عام فہم سی بات ہے کہ جس مقام کو خریدنے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ کسی اور کی ملکیت ہے تو پھر ایسے مقدمے کی سماعت سماعت کے جزیروں میں بھنگڑا ڈالنے جیسا عمل ہی کہلائے گا۔ مگر یہ بات سیشن جج صاحب کو کون سمجھائے؟ موصوف کا اصرار ہے کہ مدعی نے مکان خرید لیا ہے تو اس کے خلاف فیصلہ دینا قانون کی خلاف ورزی ہے۔
بغیر ثبوت کو کسی جائداد پر دعویٰ کرنا ایک شیطانی عمل ہے مگر اس سے بھی زیادہ کہ شیطانی عمل یہ ہے کہ جس مقدمے کو سول کورٹ اور سیشن کورٹ عدم ثبوت کی بنا پر خارج کرتی ہے ہائی کورٹ اسے گلے لگا لیتی ہے۔ اور طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی اس کے لیے باہیں پھیلائے کھڑی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے قانون کی نظر میں انصا ف کے کیا معنی ہیں۔ اور قانون کن اصولوں پر عمل کرتا ہے اور اسے یہ حق کیسے حاصل ہے کہ وہ اپیل در اپیل کے شیطانی چکر چلا کر کسی شہر ی اور اس کی نسلوں کو ذہنی اذیت دے۔ مالی خسارے کی سزا سنائے اور معاشرے میں اسے رسوا اور بدنام کرے حیرت ہے عدالت عظمیٰ اس معاملے پر ایکشن کیوں نہیں لیتی جس ملک کی عدلیہ غیر قانونی فیصلے سنائے وہاں قانون کیسے باوقار ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کی حرمت کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔
بھارتی عدالت کے ایک ہدایت کے مطابق ایسی عمارات کو مندم نہیں کیا جاسکتا جن کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ وہ تو تعمیر کے وقت بھی غیر قانونی تھی۔ ان کی تعمیر کو روکنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ مگر تعمیر کے بعد اسے ملبے کا ڈھیر نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر حکومت کے لیے اس مقام کا حصول ناگزیز ہے تو حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس مقام کے متبادل فراہم کیے جائیں۔ مگر ہماری عدالتیں برسوں سے تعمیر عمارتوںکو ملبے کا ڈھیر بنانے میں دلچسپی لیتی ہیں۔ انہیں اس حقیقت سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جگہ جو حکومت کے لیے اہمیت اختیار کرگئی ہے اسے حکومت کے کسی ادارے ہی نے فروخت کیا تھا۔
عدالت عالیہ بہاولپور عدم ثبوت کی بنا پر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل کو شرف قبولیت عطا کردیتی ہے۔ مگر ان کی سماعت نہیں کی جاتی۔ لیفٹ اوور کا کوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ اور مقدمات کو اندھے کنواں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی سائل پیشی کے لیے ریکارڈ برانچ سے رجوع کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ جسٹس صاحبان کا حکم ہے کہ جن مقدمات کی پیشی ان کے مبارک قلم سے فائل کی زینت بنی ہیں۔ صرف انہی کی پیشی لگائی جائے۔ جو مقدمات لیفٹ اوور کیے جاتے ہیں ان پر چیف جسٹس صاحبان کی مہر انصاف ثبت کرنا قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ان فائلوں کو اندھے کنواں سے کون نکالے۔