سعد رضوی کی گرفتاری، تحریک لبیک کا احتجاج – حامد ریاض ڈوگر

302

ذرائع ابلاغ کا لبیک آئوٹ، حکومت معاہدے کی خلاف ورزی کیوں کررہی ہے؟

گزشتہ برس جب فرانس کے صدر کی طرف سے سرکاری سطح پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان خاکوں کی سرکاری عمارات پر حکومتی اہتمام کے ساتھ تشہیر اور نمائش کا اہتمام کیا گیا تو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تمام دینی و سیاسی جماعتوں، مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ اور راست فکر اہلِ دانش نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ حکومتِ پاکستان نے بھی سفارتی سطح پر اس اقدام کی مذمت کی۔ تحریک لبیک پاکستان نے اسی احتجاج کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلام آباد کی جانب ملک گیر مارچ کا اعلان کیا اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد چوک میں بھرپور دھرنا دیا۔ تحریک لبیک قبل ازیں نواز لیگ کے دورِ اقتدار میں بھی اس جگہ طویل دھرنا دے کر عالم گیر شہرت حاصل کرچکی تھی، اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے باقاعدہ فوج کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ بہرحال گزشتہ برس کے دھرنے کے بعد حکومتی سطح پر تحریک لبیک کی قیادت سے مذاکرات کیے گئے۔ اس دھرنے میں تحریک کے بانی امیر مولانا خادم حسین رضوی معذوری اور بیماری کی حالت میں شرکاء کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے، حکومتی مذاکراتی ٹیم نے ان سے مذاکرات میں اس امر سے اتفاق کیا کہ چونکہ فرانس میں حکومتی سطح پر شانِ رسالتؐ میں گستاخی کا ارتکاب کیا گیا ہے اس لیے حکومتِ پاکستان سرکاری طور پر اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو پاکستان بدر کرے گی۔ تاہم حکومت نے دھرنا کی قیادت سے اس کے لیے تین ماہ کی مہلت طلب کی جو اسے مل گئی اور فریقین میں باقاعدہ تحریری معاہدہ طے پا گیا، جس کی ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشہیر بھی کی گئی۔ اس معاہدے کے کچھ ہی دیر بعد خادم حسین رضوی انتقال کرگئے اور لاہور کے مینارِ پاکستان میدان میں ان کے جنازے پر فقیدالمثال اجتماع دیکھنے میں آیا۔ پیر خادم حسین رضوی مرحوم کی جگہ اُن کے بڑے فرزند حافظ سعد حسین رضوی کو تحریک کی امارت کا منصب سونپا گیا، جنہوں نے منصب سنبھالنے کے بعد واضح کیا کہ حکومت سے ہر حال میں فرانسیسی سفیر کی پاکستان بدری کے معاہدے پر عمل درآمد کروایا جائے گا، حکومت نے اگر وعدہ خلافی کی تو تحریک ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب مارچ کرے گی اور کارکنان معاہدے پر عمل کروائے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ جوں جوں تاریخ قریب آرہی تھی، کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ تاہم حکومت کے بعض وزرا نے بروقت تحریک لبیک کی قیادت سے رابطہ کرکے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور حکومت کو اپنے پچھلے وعدے کی تکمیل کے لیے مزید دو ماہ کی مہلت دینے پر آمادہ کرلیا۔ ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس کی رو سے حکومت نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرنے اور 20 اپریل سے قبل اس مقصد کے لیے بل اسمبلی سے منظور کرانے کا وعدہ کیا۔

دو ماہ مزید گزر گئے مگر حکومت کی جانب سے وعدے کی تکمیل کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، وفاقی وزرا خصوصاً وزیر داخلہ شیخ رشید سے اس ضمن میں جب بھی ذرائع ابلاغ کے کسی نمائندے نے پوچھا تو انہوں نے معاملے کو رواروی میں ٹالتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں، ہم تحریک کے بھائیوں سے مل کر کوئی راستہ نکال لیں گے۔ اب جب بیس اپریل کی مقررہ تاریخ میں دس دن سے بھی کم وقت رہ گیا تو گیارہ اپریل کی شب تحریک کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں معاملے پر تفصیلی غور و خوض کے بعد مرکزی امیر نے شوریٰ کا یہ فیصلہ سنایا کہ 20 اپریل کو رات بارہ بجے تک انتظار کریں گے، اگر حکومت نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو بارہ بج کر ایک منٹ پر ہم اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیں گے۔ اس اعلان کو ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے، حافظ سعد حسین رضوی شہر کے ایک معروف تاجر کی نمازِ جنازہ سے فارغ ہوکر واپس روانہ ہوئے ہی تھے کہ پولیس نے ان کی گاڑی روک کر انہیں گرفتار کرلیا۔ ان کی یہ گرفتاری قطعی غیر متوقع اور اچانک تھی، تاہم یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ برقی ذرائع ابلاغ کے کسی چینل سے گرفتاری کی یہ خبر نشر نہ کیے جانے اور تحریک لبیک کے مکمل بلیک آئوٹ کے باوجود ملک بھر میں تحریک کے کارکن فوری طور پر سڑکوں پر آگئے اور شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے موٹر ویز سمیت تمام اہم شہروں اور قصبات میں کارکنوں نے اہم مقامات پر دھرنے دے کر پورے ملک میں ٹریفک کا نظام درہم برہم کردیا اور اپنے گزشتہ دھرنے کی طرح مختلف شہروں کے مابین اور شہروں کے اندر آمدورفت تقریباً ناممکن بنادی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت کے دعویدار برقی ذرائع ابلاغ نے پہلے تو کئی گھنٹے تک اس صورت حال کی قطعاً کوئی خبر نہیں دی، پھر رات گئے ٹریفک بلاک ہونے کی خبریں دینا شروع کیں تو اس کی وجہ اور پس منظر کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ یہ اطلاع البتہ خصوصی اہتمام سے دی جاتی رہی کہ ایمبولینسیں بڑی تعداد میں ٹریفک میں پھنسنے سے مریضوں اور زخمیوں کو ہسپتالوں تک نہیں پہنچایا جارہا۔ اس طرح پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا یہ بیان بھی نمایاں کیا جاتا رہا کہ آکسیجن گیس کی گاڑیاں ٹریفک میں پھنسی ہونے کے باعث ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جس سے کورونا کے مریضوں کی شرح اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ان سطور کی اشاعت تک اللہ کرے صورت حال بہتر ہوجائے، تاہم اب تک بے بس اور بے قصور عوام شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ لوگوں کے لیے سفر اور اپنے کاموں کی جگہوں تک پہنچنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ عام آدمی کی اس مشکل کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت اور ذرائع ابلاغ کی یک طرفہ رپورٹنگ میں اس کی تمام ذمہ داری تحریک کے احتجاج کرنے والے کارکنوں پر ڈالی جا رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ انہیں احتجاج کا راستہ دکھانے والے کون ہیں؟ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم اتوار کے روز لاہور میں تھے جن کی ہدایت پر حافظ سعد رضوی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، مگر سوال یہ ہے کہ حکومت نے جب دو ماہ قبل تحریک لبیک سے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کرنا کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی؟ اگر اس راستے میں کوئی ناقابلِ عبور دشواری حائل تھی تب بھی کیا بہتر راستہ یہ نہ ہوتا کہ حکومت تحریک کے قائدین سے مذاکرات کرتی اور دو ماہ قبل کی طرح انہیں کسی قابلِ عمل لائحہ عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی۔ حکومت نے تحریک کے امیر کی گرفتاری کا آخری اقدام پہلے ہی مرحلے میں اختیار کرکے کارکنوں کو اشتعال اور توڑ پھوڑ کا راستہ کیوں دکھایا؟ جب حکومت بھارت جیسے ازلی دشمن سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کے لیے اپنی بے تابی کا اظہار اکثر کرتی رہتی ہے تو آخر اپنے ملک کے لوگوں سے مذاکرات اور گفت و شنید سے گریز کیوں؟

بعض مبصرین کی رائے ہے کہ بیوروکریسی میں موجود حکومت کے مخالف سوچ رکھنے والے بااثر عہدیدار جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کررہے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت سکون کا سانس نہ لے سکے۔ اب جب کہ پی ڈی ایم کے اندرونی انتشار کے سبب اس جانب سے دبائو میں کمی آئی تھی تو تحریک لبیک کے خلاف اقدام سے حکومت کے لیے نیا مسئلہ پیدا کردیا گیا ہے، حالانکہ اربابِ اقتدار اگر تدبر سے کام لیتے تو حالات کو اس خرابی تک پہنچنے سے پہلے باآسانی سنبھالا جا سکتا تھا۔

(This article was first published in Friday Special)