فداک اَبی وَاُمّی

684

بارہا سامنے آچکا، اس حکمران طبقے کا پاکستانی عوام کے عقائد اور جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہم میں سے نہیں۔ ان کا قبلہ وکعبہ مغرب ہے۔ یہ کسی طور مغرب کو ناراض نہیں کرسکتے، ان کی وفاداری فرانس کے ساتھ ہے، گستاخ رسول کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کا خون اور ختم المرسلینؐ کی ناموس کی حرمت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، ورنہ لاہور میں کریک ڈائون کے نام پر جو کچھ کیا گیا، کیا اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟۔ ایسی خونریزی! چند پولیس والوں کے ساتھ کچھ افراد نے جو کیا وہ قابل مذمت ہے لیکن اس کے جواب میں اتنا بڑا ظلم! مسلمانوں کا خون اور اس آسانی سے بہادیا جائے!! یہ حکومت اس فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے صدرنے علانیہ کہا تھا ’’فرانس خاکے بنانے سے دستبردار نہیں ہوگا‘‘۔ دین غیرت کا نام ہے۔ غیرت ِ دین کے بغیر زندگی زندگی نہیں، موت ہے۔
حکومت کی دلیل یہ ہے کہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری، پوری یورپی یونین سے محاذ آرائی ہے۔ برآمدات نصف ہوکر رہ جائیں گی۔ معیشت ڈوب جائے گی۔ کس معیشت کی بات کی جارہی ہے؟ وہ معیشت جو پہلے ہی جان کنی کے عالم میں ہے، بنگلادیش کے مقابلے میں بھی کچھ نہیں رہی، بھوک اور افلاس کے علاوہ کچھ نہیں دے رہی، آئی ایم ایف کے پاس گروی ہے۔ ایٹم بم بنانے کے لیے امریکی پابندیاں برداشت کرلی گئیں تھیں، فرانسیسی پابندیاں کیا اس سے سوا ہوں گی؟ کوئی بتا سکتا ہے اس حکمران طبقے کی موجودگی میں معیشت کب تک اس قابل ہوسکے گی کہ ہم توہین رسالت کا جواب دے سکیں گے۔ فرانس کے سفیر کو نکال باہر کرسکیں گے۔ سیدالمرسلینؐ کی ناموس کے مقابلے میں معیشت، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے استعمار کے جال کے حوالے دیے جارہے ہیں، ہر اُس چیز سے استدلال کیا جارہا ہے، جس نے ہمیں آزادی کے بعد سے زنجیر کررکھا ہے۔ درآمد برآمد، سفارتی تعلقات، تجارتی تعلقات زندگی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جس دنیا میں عالی مرتبتؐ کی ناموس محفوظ نہیں کیا اس دنیا میں زندہ رہنا مسلمانوں کو زیب دیتا ہے۔ ایسی دنیا میں ہمیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں تاوقتیکہ ناموس رسالتؐ کی حفاظت کو ممکن نہ بناسکیں۔
مسجد کے میناروں سے اشھدان محمد الرسول اللہ محض صدا نہیں رسالت مآبؐ کی ذات سے وہ تعلق ہے جس کے مقابل کوئی تعلق، تعلق نہیں، کوئی فخر، فخر نہیں، شوق واشتیاق کا کوئی جذبہ، جذبہ نہیں۔ گمراہی پھیلانے اور فتنے برپا کرنے والے دشمنان اسلام کے لیے اس تعلق کو سمجھنا ممکن نہیں لیکن مسلمانوں پر حکمرانی کرنے والوں کو تو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہ حکمران بھی امریکا، فرانس اور برطانیہ کی نظر سے دنیا کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ ان کے دل ودماغ انہیں کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ان کے دست حاجت انہیں کی سمت اُٹھے رہتے ہیں۔ ان کے تجزیے انہیں کی فکر سے کشید ہوتے ہیں۔ اپنے اقتدار کی بقا کے لیے یہ ان ہی کے مرہون منت رہتے ہیں۔ جب معاملہ یہود وہنود اور نصاریٰ کا ہو تو کیسی پرسوز آواز میں یہ دلائل دیتے ہیں ’’جنگ مسئلہ کا حل نہیں، مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں‘‘ لیکن جب معاملہ اپنوں کا ہو تو سیدھی گو لیاں برساتے ہیں۔
یہ حکمران طبقہ ذات اقدسؐ کو مکمل طور پر سمجھ ہی نہیں سکا۔ سیدالمرسلینؐ کے بارے میں ان کا علم سطحی نوعیت کا ہے۔ یہ اپنے اسفل مفادات کے لیے آپؐ کے چاہنے والوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کے سینوں میں دبی چنگاریوں کو ہوا دیتے ہو۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہو۔ محافظ ختم نبوت بن کر ان سے ووٹ لیتے ہو جب مفادات پورے ہوجاتے ہیں تو یہ چاہتے ہو کہ فداک ابی وامی کے جذبے سرد پڑجائیں، رسول اللہؐ کی عظمت کی خوشبو ماند پڑ جائے۔ ایسا نہیں ہوتا، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ تب یہ حکمران عاشقان رسول کے خلاف تدبیروں اور سازشوں میں لگ جاتے ہیں۔ مذاکرات کرتے ہیں، وعدے کرتے ہیں لیکن محض دھوکا دینے کے لیے، وقت گزارنے کے لیے۔ جب تمام منفی ہتھکنڈے ناکام ہوجاتے ہیں تو یہ انہیں مٹانے کے درپے ہوجاتے ہو۔ ان کے خلاف مسلح آپریشن کرتے ہیں، پابندیاں لگانے میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت یہ کتنے کمزور کتنے بودے،کتنے ناتواں نظر آتے ہیں۔
ایم کیو ایم نے کئی عشروں تک پورے کراچی کو بلاک کیے رکھا، خون میں نہلادیا، بلدیہ ٹائون کے 260مزدوروں کو زندہ جلادیا۔ بے نظیر کی موت پر پی پی نے درجنوں ریلوے اسٹیشنوں کو خاک کردیا۔ خود عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دیا، لوگوں کو پولیس کے خلاف اکساتے رہے۔ حکومتی واجبات ادا کرنے سے منع کرتے رہے۔ پارلیمنٹ اور ٹی وی اسٹیشن پر حملے کیے، اسی دھرنے سے ماردو، مرجائو، آگ لگادو، جلادو کے پرشور نعرے لگتے رہے چونکہ یہ حکمران جماعت کے مفادات کے حصول کے لیے تھا تو سب درست تھا لیکن جب حکومت کی وعدہ خلافی پر لوگ سڑکوں پر آئے، سعد رضوی کی گرفتاری پر ردعمل دیا تو یہ دہشت گرد جتھے ہوگئے۔ حد ہوگئی نالائقی اور بے تدبیری کی۔ اس بے تدبیری اور حماقتوں کی پوٹ کو سنبھالنے کے لیے جو حرکتیں کی جارہی ہیں، کاروائیاں اور غلطیاں کی جارہی ہیں اس سے معاملہ دبے گا نہیں، طول پکڑے گا۔ مسلمان کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہو آپؐ کی ناموس کا معاملہ ہو تو وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اس دنیا کو بھی۔ فرانس کے سفیر کو نکالنا ملک کے لیے اس درجے تباہی وبربادی قرار دیا جارہا ہے، جیسے پاکستان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اول تو ایسا ہوگا نہیں لیکن اگر ایسا ہو بھی توکیا ناموس رسالت کے سامنے ملک کوئی حیثیت رکھتا ہے؟
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
اگر آپؐ کی ذات با برکات نہ ہوتی تو کائنات اور انسان کی تخلیق کا کوئی مقصد نہ رہتا۔آپؐ کی ذات اقدس تمام قابل محبت چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب اور ہم سے قریب تر ہے۔ زندگی کی تمام محبتیں، حیات وکائنات کے ضابطے اور قانون، جینے مرنے کے طور طریقے، احساسات وجذبات، انوار وتجلیات، آمدو رفت، تسلیم ورضا ہم آپؐ کی خاک پا سے اخذ کرتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا معاملہ دیگر ہے۔ یہاں قوم پرستی کی بنیاد پر مفادات کا تعین کیا جاتا ہے۔ شخصی خود مختاری کے اصول پر قانون سازی کی جاتی ہے۔ وہ جو سرمایہ دارانہ معیشت میں سانس لیتے ہیں، لبرل رویوں میں زندگی جیتے ہیں، ڈالر کو مقصد حیات جانتے ہیں اور لبرل ورلڈ آڈر کے خواب دیکھتے ہیں، یہ ان مسلمانوں کے جذبات کو کیا سمجھ سکتے ہیں جو جنت کے داخلے سے زیادہ مسجد نبوی میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرانس کے سفیر کی بے دخلی سے آگے بڑھ کر ہمیں اس نظام کی تدفین پر زور دینا ہوگا جو ایسی گستاخیوں کی آزادی ٔ اظہار رائے کے نام پر اجازت دیتا ہے۔ اس نظام میں محمدؐ سے وفا کی گنجائش نہیں، یہ نظام عالی مرتبتؐ کی ناموس کی حفاظت کے لیے اٹھنے والوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس نظام کی علمبردار حکومتیں عورت مارچ کی حفاظت کرتی ہیں، گستاخانہ خاکوں پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ یہ نظام سفیر نکالنے والی بات برداشت نہیں کرتا تو ناموس رسالت کی حرمت کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ، اسلامی نظام کی موجودگی ہی عالی مرتبتؐ کی ناموس کی حفاظت کرسکتی ہے۔