پاکستان عاشقانِ رسول کی قتل گاہ

522

امیر جماعت ِ اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ حکومت نے اسلام دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے تحریک ِ لبیک پاکستان کے کارکنان پر ظلم کیا اور فیٹفFATF) ( کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے نہتے عوام کا قتل کیا گیا ہے۔ حکومت اس طرح کے اقدامات سے ملک کو نقصان اور اسلام دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لاہور چوک یتیم خانے پر ہونے والے مظالم نے لال مسجد کی یاد تازہ کر دی ہے۔ امیر ِ جماعت کی لال مسجد مظالم سے یاد آیا کہ اُس وقت بھی حکومت میں شیخ رشیدا ور فواد چودھری اور جسے لوگ جنرل پرویز مشرف کی پوجا میں مصروف تھے اور آج یہی عمران خان کے پجاری ہیں اور شیخ رشید تو مشرف سے قبل نواز شریف کے پاؤں دبانے بھی کام کر تے رہے ہیں اور آج یہی شیخ رشید شریف خاندان کی گردن دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیرِ داخلہ سے پوچھا جا رہا ہے کہ چوک یتیم خانے میں نہتے بے گناہ عوام کو کیوں مارا تو جواب دیا کہ عمران خان عاشقِ رسول ؐ ہیں اور تحریک ِ لبیک کا سوشل میڈیا چلانے والے افراد کو سرینڈر کر دینا چاہیے جبکہ ’آج ہم نے ان کو عطیات دینے والوں سے بھی باز پرس کی ہے۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ لوگ باتیں کرتے ہیں اور عمران خان سارے کام کرتے ہیں، آپ (عمران خان) اسلام کے لیے ہیں اور اسلام آباد آپ کو اللہ اور عوام نے دیا ہے۔ یہ اور اس جیسی فضول باتوں سے عمران خان اور شیخ رشید کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ تو وہی جان سکتے ہیں لیکن فردوس عاشق اعوان کسی سے کیوں پیچھے رہتیں۔ انہوں نے بھی کہا کہ جتھے نے پولیس پر پہلے حملہ کیا تھا لیکن یہ نہیں بتایا کہ پولیس کیا گلدستہ پیش کرنے گئی تھی؟ جی عاشق اعوان صاحبہ پولیس وہاں بچوں کو جان سے مارنے کے لیے گئی تھی جیسے لال مسجد پر حملے پولیس بیچاری معصوم بچیوں پر بم برسانے گئی تھی اس وقت بھی آپ پاکستان میں تھیں۔
حکومت کی جانب سے تحریک ِ لبیک پر پابندی کے اعلان سے قبل 14اپریل کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس جماعت کی حمایت کا اعلان سامنے آیا تھا۔ تحریک ِ لبیک پاکستان کے کارکنوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ تنظیم کو متنبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ حکومت اور عسکری اداروں کی باتوں پر اعتماد نہ کرے بلکہ مسلح جدوجہد کی راہ اختیار کرے۔ شیخ صاحب نے بتایا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کالعدم تحریک ِ لبیک پاکستان سے مذاکرات جاری ہیں سوال یہ ہے کہ کس قانون کے تحت ایک کالعدم تنظیم سے مذکرات کیے گئے، اعلان میں شیخیاں یہ بھی بگھاری گئیں کہ 11مغوی پویس اہلکاروں کو رہا کرا لیا گیا ہے اور اسی دوران خبر یہ بھی آتی رہی کہ ساری رات عاشقانِ رسول کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور مزید گرفتاریاں کی گئیں تاکہ مذاکرات میں اپنا پلہ بھاری رکھا جائے۔
عمران خان نے بھی ان باتوںکا جواب دینے کے بجائے کہا کہ تحریکِ لبیک پاکستان سے جو معاہدہ کیا تھا اس کی پاسداری کیوں نہیں کر رہے کہہ رہے ہیں کہ بڑی بدقسمتی ہے ملک میں متعدد مرتبہ سیاسی اور دینی جماعتیں اسلام کو غلط استعمال کرتی ہیں اور ایسا استعمال کرتی ہیں کہ اپنے ملک کو نقصان پہنچاتی ہیں، اس سے دوسروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اپنے ملک اور لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ بالکل ٹھیک کہا عمران خان نے اور یہ سب نقصان پاکستان ہی کو ہو رہا ہے اور پورے فرانس میں توہین آمیز خاکے دیواروں پر پوسٹرز بنا کر لگائے جارہے ہیں ان کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے یورپی یونین کے سالانہ اجلاس میں یورپ میں بیٹھ کر فرانسیسی سفیر سے بھری محفل میں ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا ان کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔
14اپریل سے اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تحریک ِ لبیک کے کارکنان کے خلاف مقدمات کا اندراج جاری ہے پنجاب کے اضلاع گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات میں تحریک ِ لبیک پاکستان کے کارکنوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 400 سے زیادہ کارکن و عہدیدار زیرِ حراست ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گوجرانوالہ میں 89، سیالکوٹ میں 50، گجرات میں 48، حافظ آباد میں 22، منڈی بہا الدین میں 18 اور نارووال میں 17 ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سیالکوٹ میں پولیس وین کو نذرِ آتش کرنے، پولیس اہلکاروں کو چھت سے نیچے پھینکنے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر دفعات کے تحت ضلعی امیر سیالکوٹ صوفی رفیق باجوہ سمیت 36 نامزد کارکنوں و عہدیداروں اور 600 نامعلوم کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ کے تھانہ صدر میں 45 نامزد ملزمان اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف اور تھانہ سٹی کامونکی میں 90 نامزد اور 400 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گوجرانوالہ پولیس ترجمان کے مطابق 19 ملزمان گرفتار ہیں جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ مقدمات میں نامزد افراد کیخلاف تھانے میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے، دہشت گردی، اغوا، انتشار پھیلانے اور کورونا کے پھیلاؤ کے سبب بننے کی دفعات شامل ہیں۔ ایوانِ صدر وزیرِ اعظم ہاؤس اور ریاستی ادارے اس پورے پولیس گردی کا کو ئی پرسان ِ حال پاکستان میں نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے سب مل کر پاکستان عاشقانِ رسول کی قتل گاہ بنانے میں اپنی ساری توانائی صر ف کر رہے ہیں۔
حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں لیکن ریاست کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف نے کبھی بھی ریاست کو اس کی ضرورت کے وقت ساتھ نہیں دیا اور علماء نے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان تک ہمیشہ ریاست کا ساتھ دیا لیکن اب ریاست کو پہلے جیسی حمایت دینے کو تیار نہیں۔ گزشتہ 20برسوں سے مدارس کو قابو کرنے کی کوششوں اور دیگر وجوہات کی بناء پر علماء اور ریاست کے مفادات آپس میں ٹکرانے لگے ہیں، ماضی میں مدارس اور طلبہ کو استعمال کیا گیا، ایسا محسو ہو رہا ہے کہ پہلے کوئی خفیہ ہاتھ دیوبند اور اب بریلوی مدارس کے طلبہ کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ ریاست نے اپنی ضروریات اور بدلتی ترجیحات کے تحت مختلف اوقات میں مختلف مسالک اور فرقوںکو بے دریغ استعمال کیا۔ اگر افغان جہاد کے دور میں دیوبند مکتبہ ٔ فکر کے علماء کو سامنے لایا گیا اور مشرف کے دور میں دیوبند علماء کے ساتھ کچھ بریلوی علماء کو بھی آگے لانے کی کوشش کی گئی۔ نجانے یہ سلسلہ کب اور کہاں ختم ہوگا؟