ساتواں سبق: شکر

262

مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’پس تم مجھے یاد کرو (رکھو) میں تمہیں یاد کروں گا (رکھوں گا)! اور میرا شکر ادا کرو! میری ناشکری نہ کرو!‘‘ (البقرہ:251) اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر اپنے احسان کا ذکر فرما رہے ہیں اور دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کی ناشکری سے بچیں وہ اپنے فضل وکرم سے انہیں اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اُسے یاد کریں گے تو وہ بھی انہیں یاد فرمائے گا، کتنا عظیم اور محبت سے بھرا ہوا ہے یہ رب کا فضل وکرم ۔
’’اللہ کے شکر کا مفہوم‘‘ اللہ کے شکر کے کئی درجے ہیں ابتدائی درجہ یہ ہے کہ اللہ کے احسانات کا اعتراف و اقرار ہو اور اس کی نافرمانی سے شرم آئے! اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے شکر کے لیے یکسو ہو اور جسم کی ہر حرکت، زبان کے ہر لفظ، دل کی ہر دھڑکن اور قلب کے ہر خیال سے شکر ادا کرنے کا ارادہ کرے ۔ ’’کفر‘‘ کی ممانعت سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے ہے کہ اللہ کے ذکر وشکر میں کوتاہی کا انجام کیا ہے! حقیقت یہ ہے کہ خدا فراموشی اور اللہ کی ناشکری وہ مہلک خط (لکیر) ہے جس کا آخری نقطہ جہاں تک وہ (لکیر) پہنچ سکتی ہے کفر ہے! العیاذ باللہ: نوٹ: کفر کے معنی ناشکری اور کفران نعمت کے بھی ہیں اور انکار وکفر کے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جس کا شمار ممکن نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘ (النحل:81) ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو انسان کے بس میں نہیں لیکن کثرت سے شکرگزاری کرنا ایک محبوب عمل ہے جس پر بے شمار اجر وثواب ملتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔
اللہ کو شکر گزار بندہ محبوب اور ناشکرا نہایت ناپسندیدہ ہے۔ انسان پر شیطان کے حملوں میں سے سب سے بڑا حملہ یہ ہے کہ اُسے ناشکری میں مبتلا کردے۔ لہٰذا روز وشب میں جو کوئی چھوٹی بڑی نعمت یا راحت میسر آئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت ڈالیں‘ مثلاً گھر والوں کو عافیت میں دیکھیں تو اللہ کا شکر ادا کریں، کھانا سامنے آئے تو اللہ کا شکر ادا کریں، بچہ اچھی تعلیم حاصل کررہا ہو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بچہ کھیلتے ہوئے اچھا لگے تو اللہ کا شکر ادا کریں۔ ’’حقیقی شکر یہ ہے کہ بندہ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بسر کرے‘‘ یاد رکھیے اللہ کی دی ہوئی نعمتیں، اچھا کھانا، اچھا لباس اچھا گھر، اگر آپ کی زندگی میں نظر نہ آئیں اور آپ بخل سے کام لیں تو یہ بھی اللہ کی ناشکری ہے۔
مطالعہ حدیث: سیدنا نعمان بن بشیرؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے۔ اظہار نعمت شکر ہے اور اخفا ناشکری جو کم کا شکر ادا نہیںکرتا وہ زیادہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا۔ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں۔ اجتماعیت باعث برکت و رحمت ہے اور گروہ بندی باعث عذاب ہے۔ (ترمذی) سیدنا معاذ بن جبلؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ رسول اللہ ؐنے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا: اے معاذؓ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اس لیے ہر نماز کے بعد یہ کہا کہ (ترجمہ) اے اللہ ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے میں میری مدد فرما‘‘۔ (ابودائود، نسائی)
سیرتِ صحابہ: سیدنا عمر بن خطاب کا دور خلافت تھا سیدنا سعد بن ابی وقاص ایران کے محاذ پر قلعے پر قلعے فتح کرتے جارہے تھے، بالآخر ایرانیوں نے ہاتھیوں کی فوج لانے کا فیصلہ کیا سیدنا عمر ؓ مجاہدین کی درخو است پر تازہ دم دستہ روانہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی خاتون دستے کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی، پوچھا کہ کہاں جارہی ہو؟ فرمانے لگی اپنے چار نوجوان فرزندوں کے ساتھ میدان جہاد میںجارہی ہوں۔ میدان جنگ میں رات کے وقت اس خاتون نے اپنے بیٹوں سے ایمان افروز خطاب کیا: ’’میرے بچو!‘‘ تم نے اپنی رضا اور خوشی سے اسلام اور ایمان کی دولت کو سینے سے لگایا پھر اللہ کی راہ میں ہجرت کا شرف بھی حاصل کیا۔ خدا کی قسم جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو اسی طرح ایک باپ کے صلب سے پیدا ہوئے ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے کبھی خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو کبھی رسوا کیا۔ تمہارا حسب اور نسب ہر عیب اور داغ سے پاک ہے۔ آخرت کی دائمی زندگی دنیا کی حیات فانی سے کہیں بہتر ہے۔ اگر میدان جنگ میں لوگوں کے قدم اکھڑیں تو تم آگے بڑھنا۔ اللہ کا ذکر اور دعائیں کرتے ہوئے میدان میں ڈٹ جانا۔ خبردار! اگر تم میدانِ جنگ سے بھاگ کر آئے تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اللہ کے راستے میں جان قربان کردینا سعادت اور جہاد سے منہ موڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ میدانِ جنگ میں جب ہاتھیوں کے لشکر نے ہلہ بولا تو آغاز میں غازیوں کے قدم اکھڑ گئے اسی لمحے اس خاتون کے چاروں بیٹوں نے ایک دوسرے سے نام بہ نام پکار کر کہا ماں کی نصیحت کو یاد کرو، چنانچہ وہ آگے بڑھے اور ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹنا شروع کردیں اس طرح دشمن کا لشکر پسپا ہوگیا۔ شام کو لوگ اپنے اپنے خیموں میں واپس پلٹے، شام کے اس جھٹپٹے میں ایک خیمے میں چراغ جل رہا تھا اور آج اس خیمے میں ایک بوڑھی تنہا بیٹھی تھیں۔ سعد بن ابی وقاص کو معلوم ہوا تو خود چل کر خیمے پہنچے، بہادر ی اور شجاعت کی ایک داستاں سعد کے لیے زبان سے ایک لفظ بھی نکالنا مشکل ہورہا تھا کہ اس بوڑھی خاتون نے پوچھا۔ ’’سعد بتائو جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟‘‘ سعد نے بمشکل یہ اطلاع دی کہ آپ کے چاروں بیٹے میدان جنگ میں شہید ہوگئے ہیں۔ ماں نے پھر پوچھا۔ ’’جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟‘‘ سپہ سالار نے بتایا۔ ’’اللہ نے فتح عطا فرمائی ہے‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سیدہ خنساء سجدے میں گر گئیں۔ ان کی زبان پر نہ کوئی نوحہ تھا نہ ہی کوئی مرثیہ۔ وہ اللہ کا شکر ادا کررہی تھیں اور زبان سے مسلسل کہہ رہی تھیں۔ ’’اے اللہ! میں نے یہ قربانی تیرے راستے میں پیش کی ہے تو اسے قبول فرما لے۔ اے اللہ! بوڑھی ماں کو اپنے بچوں سے جنت میں ملا دینا‘‘۔ تاریخ اسلام اس عورت کو حضرت خنساء بنت عمرو کے نام سے جانتی ہے۔