!زخمی ایڑیاں

378

مخالفین لاکھ کہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کانوں کے کچے ہیں۔ مگر یہ کہ ایسی بات ہے جو کسی بھی ’’چورن‘‘ سے ہضم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ عمران خان تو اپنی بھی نہیں سنتے کسی اور کی خاک سنیں گے۔ موصوف کے خیرخواہ نے بہت سمجھایا کہ ٹیم کی کارکردگی ناقص ہو تو کپتان کی ذہنی اور دماغی صلاحتیں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ دستک دینے والوں کے ہاتھوں سے لہو رسنے لگتا ہے مگر خان صاحب کے درِ سماعت میں ذرا سی بھی ہل چل نہ ہوئی حتیٰ کہ کہنے والوں کے منہ تو کجا کان بھی پک گئے۔ اور ان کی سماعتوں میں پکے بوٹوں کی چاپ گونجنے لگی درمیان میں لانگ بوٹ آ ہی گئے ہیں تو ہم یہ بتانا اپنی کی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ بعض قائدین نے شکوہ کیا ہے کہ لشکر میں شیخ کے عنوان سے جو کالم لکھا گیا ہے اس کے بین السطور کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تو اس معاملے میں ہم یہی کہ سکتے ہیںکہ کالم کا عنوان کسی سیانے کے قول سے اخذکیا گیا ہے اور وہ قول کچھ یوں ہے شیتلے میں میخ نہ رکھنا لشکر میں شیخ نہ رکھنا امید ہے قارئین کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ تھیلے میں میخ رکھنے سے تھیلا پھٹ بھی سکتا ہے اور لشکر میں شیخ موجود ہو تو ’’فوج‘‘ کے مختلف دستے آپس ہی میں دست وگریبان ہونے لگتے ہیں۔
وزارت قانون نے تحریک لبیک پر پابندی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ مگر شیخ جی فرماتے ہیںکہ تحریک لبیک پر پابندی لگانا قومی ضرورت ہے۔ موصوف نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کی کردار کشی کرنا ضروری سمجھا۔ شیخ رشید نے نہ صرف حکومت کے تھیلے میں سوراخ کردیا ہے۔ بلکہ حکومت کے ارکان کو بھی دست وگریبان کردیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ تحریک لبیک دہشت گرد نہیں۔ وہ تو عاشق رسول ہیں دہشت گرد تو اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے سہولت کار بنی ہوئی ہے۔
کاش! وزیر اعظم عمران خان سمجھ سکتے کہ محبت اور عقیدت میں بہت فرق ہوتا ہے اس فرق کو ساری دنیا جاتی اور مانتی بھی ہے کہ محبت کے خلاف بہت سے دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مگر عقیدے کی مخالفت کرنے سے معاشرے میں فساد پھیلنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمیں فسادی لوگوں کے کردار پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ ہم سب کے بزرگ یہ باور کراتے رہے ہیں کہ جو سچ فساد کا سبب بنے اس سچ سے وہ جھوٹ بہتر ہے جو خلق خدا کو فساد سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اور یہ تلقین بھی کی ہے کہ جو شخص خود کو مکمل سمجھے اس کی عقل نا مکمل ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنی ذات کو فوقیت دینا احساس کمتری کی بدترین مثال ہے۔ گویا احساس برتری میں مبتلا شخص دراصل احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے۔ سو وہ شخص ہمدردی کا مستحق ہوتا ہے۔ من حیث القوم ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ احساس برتری کے مریضوں کو ملکی قیادت سوپنا چاہیے یا نہیں؟
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ کہنا حق پر مبنی ہے کہ عمران خان نے تبدیلی کے نام پر ایسی ایسی تبدیلیاں کی ہیں جو قوم و ملک کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ مگر خان صاحب یہ بات سوچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا وہ اس کے اہل ہی نہیں خیر؟ یہ ہمارا موضوع ہی نہیں کیونکہ حکمرانوں اور قوموں کے فیصلے تاریخ کرتی ہے۔ قوم اچھی ہو تو حکمران ان کے بارے میں غلط سوچ ہی نہیں سکتا۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے امیدوار جرائم پیشہ عناصر سے رابطہ کرتے ہیں ان پر نوٹوں کی بارش کرتے ہیں اور وہ غریبوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے امیدوار کو ووٹ دلاتے ہیں۔
سراج الحق کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم وزیروں کو تبدیل کرکے کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ جس ملک کا وزیر خزانہ چار بار تبدیل ہوا ہو اس کی معیشت کو چاروں خانے چت ہی ہونا ہے۔ کانے اُٹھ کانے بیٹھ کا عمل قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ عمران خان اپنی ناکامیوں کا ذمے دار مافیا کو ٹھیراتے ہیں۔ ایسی باتیں تو سرکس کے جوکر بھی نہیں کرتے۔ مافیا کا ورد کرنے والے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ جس مافیا کو اپنی ناکامی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ انہیں اپنا دوست کہہ رہے ہیں اور دوستی پر سب کچھ نثار کرنے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ سراج الحق نے سچ ہی کہا ہے کہ عمران خان نے اتنے یون ٹرن لیتے ہیںکہ ان کی ایڑیوں سے خون رسنے لگا ہے۔ امیر جماعت اسلامی درست کہتے ہیں کہ عمران خان یو ٹرن کو کام سمجھتے ہیں اور دن رات اسی کام میں لگے رہتے ہیں۔