یو این جی سی این پی صنعتی ایریا میں اربن فاریسٹ کو فروغ دے گا

208

کراچی (اسٹاف رپورٹر)اقوام متحدہ کے گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان نے یو این جی سی این پی کی رکن پاکستان کیبلز کی جانب سے نوری آباد صنعتی اسٹیٹ میں واقع اپنے نئے صنعتی یونٹ میں 2.50 ایکٹر رقبے پر 40ہزار درخت لگاتے ہوئے اربن فاریسٹ کی ترقی کے لیے پہل کرنے کو شاندار الفاظ میں سراہا ہے۔ جی سی این پی نے اپنے ممبرز کے ساتھ ساتھ بڑی تجارتی و صنعتی ایسوسی ایشنز اور چیمبرز سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کیبلز کی قائم کردہ مثال کی پیروی کریں اور اراکین کو ماحولیاتی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری میں ان کی شراکت کے طور پر اپنے احاطے میں درخت لگانے کی ترغیب دیں۔یہ بیان یو این جی سی این پی کی سیکریٹری جنرل نزہت جہاں نے جاپان کے اکیرا میاواکی کی جانب سے تیار کردہ اربن فاریسٹ کے طریقوں اور ذرائع کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے جی سی این پی آفس میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد جاری کیا۔نزہت جہاں نے اجلاس میں یہ بھی بتایا کہ ملک میں صرف 22 ترقی یافتہ اربن فاریسٹ ہیں جن میں سے صرف کراچی میں 17 ہیں تاہم ان میں پاکستان کیبلز کا اربن فاریسٹ سب سے بڑا ہے اور یہ کسی صنعتی زمین میں اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صنعتی اور ٹاؤن ایسوسی ایشن کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اپنے انڈسٹریل اسٹیٹس میں اربن فاریسٹ کا تصور اپنائیں اور ساتھ ہی صنعتوں کو قائل کرتے ہوئے وکالت کریں باالخصوص ملٹی نیشنل اور بڑی صنعتوں کو اس مہم میں شامل ہوکر جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔انہوںکہا کہ پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں سے بے حد خطرہ لاحق ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہوا ہے اور چونکہ موسمیاتی تبدیلی جی سی این پی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اس لیے اقوام متحدہ کے گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی سے پشاور تک اربن فاریسٹ کی ترقی کے لیے قیادت کرتے ہوئے رابطوں کو استوار کرے کیونکہ در حقیقت یہ درخت لوگوں کو بے حد فوائد پہنچاتے ہیں اور اربن فاریسٹ اربن وائلڈ لائف کے لیے بہتر اور انتہائی موزوں ہے۔ یو این جی سی این پی خاص طور پر شہروں اور قصبوں میں ایک پائیدار سر سبز ماحول کو فروغ دینے پر پختہ یقین رکھتا ہے لہٰذا پاکستان میں اربن فاریسٹ کی کامیابی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نجی شعبے، شہری حکومت، سرکاری حکام اور متعلقہ شہریوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔