آئی ایم ایف کا کوٹھا

465

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی صورت مسلط عذاب پر احتجاج کرنا تو کجا کوئی بو لنے پر بھی تیار نہیں۔ وہ سیاسی پارٹیاں اور مخالفین جو حکومت پر تنقید کرنے اور برا بھلا کہنے کا ادنیٰ موقع بھی جانے نہیں دیتے، اس ظلم عظیم پر یوں خا موش ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ وہ میڈیا جس کے ٹاک شوز، تجزیوں اور کالموں سے ہر طرف دھواں ہی دھواں بھرا ہوا ہے، دکھائی دے رہا ہے اور نہ کچھ سجھائی دے رہا، آئی ایم ایف کے نام سے اس کی گرج چمک بھی بادل ناخواستہ ہوجاتی ہے۔ حکومتیں سول ہوں یا فوجی آئی ایم ایف کے سامنے سب ہی کاندھے پہ رومال رکھے ’’جی صاب جی‘‘ کہتی نظر آتی ہیں۔ برسر منبر واعظ ہوں، علماء کرام یا دینی سیاسی جماعتیں آئی ایم ایف کا نام آنے پر سب کے افکار، عقائد اور نظریات کی کمر میں درد ہونے لگتا ہے، اس کے سامنے جھکتے چلے جاتے ہیں۔
عوامی اجتماعات میں دعوے کچھ بھی ہوں مگر تمام جماعتیں آئی ایم ایف کی کزنز، بوائز یا گرل فرینڈز ہیں جو اسے نہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتیں۔ عالمی مالیاتی اداروںکے ساتھ سب ہی الگ فلیٹ میں رہنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ آئی ایم ایف کسی کو نہ جانتا ہو لیکن آئی ایم ایف کو سب جانتے ہیں اور اس کے کوٹھے پر نہ جانے کو آداب شاہی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد ان ٹوٹوں کی طرح قلیل ہوتی ہے جنہیں سنیما کے سب دروازے بند کرکے پانچ منٹ کے لیے دکھایا جاتا تھا لیکن جن کی وجہ سے ہرشو ہائوس فل اور بیکار سے بیکار سنیما کا کاروبار چلتا رہتا تھا، مین فلم خواہ کیسی ہی بکواس کیوں نہ ہو۔
دن مہینے سال اور عشرے گزرتے جا رہے ہیں، پاکستان کو مالی انحصاری کم ہی نصیب ہوئی ہے۔ جیسے جیسے ہماری خودی، عزت نفس اور آزادی کا قد چھوٹا ہوتا گیا آئی ایم ایف پر ہمارا انحصار بڑھتا گیا۔ پہلے کہا جاتا تھا پاکستان کی تمام معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے دفاتر میں بنتی ہیں، اب ہم نے اسٹیٹ بینک ہی آئی ایم ایف کی رکھالی میں دے دیا۔ اب آئی ایم ایف کی مرضی ہے اس ستم پیشہ ڈومنی سے جو سلوک چاہے کرے۔ ہمارے حکمرانوں کی منافقت، لالچ، لوٹ مار، کرپشن اور دھوکا دہی کی بدروئیں باہم مل کر جس گندے نالے میں گرتی ہیں اس کا نام آئی ایم ایف ہے۔
آئی ایم ایف اور ہمارے حکمران آپس میں مل کر اس ملک کی دولت کو لوٹنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف اب وہ جن ہے جس کے بازو پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان سکڑتا سمٹتا جارہا ہے اور آئی ایم ایف کا قد اور قہقہے بڑھتے جارہے ہیں جس کی زد میں اگر کوئی ہے تو پاکستان کے عوام ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی دکھتی کمر کے ساتھ اس جن کا پیٹ بھرنے کے لیے ہردم مشقت کررہے ہیں، اپنی ساری کمائی اس جن کی مٹھی میں رکھ کر تھکے تھکے قدموں سے خالی ہاتھ گھر لوٹ رہے ہیں لیکن اس جن کی بھوک ختم ہونے کے آثار نہیں، اور یہ سب کچھ حکمرانوں کی خوشی سے ہورہا ہے جن کے اسراف وتبذیر، اللے تللوں، کک بیکس، کمیشنوں، کرپشن اور بدانتظامی نے اس ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے کہ ہمارے باب میں آئی ایم ایف کے کسی حکم اور مداخلت کورد کرنا تو ایک طرف اعتراض بھی نہیں کیا جاسکتا۔
آج آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان ندامت سے کھڑا ہوا ہے۔ اس کی جان عزت اور آبرو کی قیمت کا تعین آئی ایم ایف کررہا ہے۔ جب بھی آئی ایم ایف صدا لگاتا ہے، پاکستان کے حکمران گھنگرو باندھ اس کے آنگن میں مچلنے اور ناچنے کے لیے بندھے چلے جاتے ہیں۔ لچھن یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب آئی ایم ایف کا جن پورے پاکستان کو ہتھیلی پر رکھ کر کہیں اور لے جائے گا۔ یاشاید لے جاچکا۔ ہم آزادی کے خواب کے اندر جی رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ہاتھ پر ہمارے حکمرانوں کی بیعت سے جن کے گھروں کے چولھے الٹے اور دیواروں پر خوف کے سائے بڑھتے چلے جاہے ہیں وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ جن کی محنت سے پیدا کردہ اربوں ڈالر آئی ایم ایف کی تجوریوں اور یہاں کے حکمرانوں کی دلالی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اپنے قرضوں اور قسطوں کی واپسی کے لیے جتنے نسخے تجویز کرتا ہے ان سے عوام کی گردنیں ہی ڈھلکتی ہیں، سرمایہ دار آئی ایم ایف کا ہدف نہیں ہوتے۔ آئی ایم ایف کو چار سو کروڑ کی قسط دینی ہو یا پانچ سو ٹیکہ عوام کو ہی لگتا ہے۔ تحریک انصاف ہو پیپلز پارٹی یا پھر ن لیگ سب ہی عوام کا خون نچوڑنے کے اس عمل کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے اصل حکمران یہی سامراجی ادارے ہیں۔
بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور ظفر
اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے
معیشت کے میدان میں ہمارے حکمرانوں کا واحد عقیدہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہی مشکل کشا اور تمام مسائل کا حل ہے۔ آئی ایم ایف بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کتنے ہی جان لیوا اضافے کرنے کا کہے، گردشی قرضوں کے باب میں اربوں کھربوں کے ٹیکس لگانے کا کہے، عوام کو دی گئی زرتلافی واپس لینے کا حکم دے، عوام کے لیے ان میں موت کے کتنے ہی سامان ہوں حکمران ان احکامات پر عمل کرنے کو اپنے اقتدار کے لیے عمر خضر سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام لاکھ چیختے چلاتے رہیں آئی ایم ایف کی خلوت میں ہمارے حکمرانوںکے پرلطف لمحات چلتے رہتے ہیں۔
عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل روسوں
خطاب آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
آئی ایم ایف کو صرف معیشت یا مالیاتی شعبوں اور پالیسیوں تک محدود سمجھنا، کوئی نشئی ہی اس خیال کا متحمل ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف ہو، ورلڈ بینک یا دوسرے سامراجی مالیاتی ادارے ان کی پالیسیاں امریکا جیسے سامراجی ممالک کی سیاسی اور اسٹرٹیجک پالیسیوں کے تابع ہوتی ہیں۔ اگر سامراجی ممالک کو کسی خطے یا ملک میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے خدمات درکار ہوتی ہیں تو پھر اس ملک اور وہاں کے حکمرانوں پر ان اداروں کے ذریعے ڈالروں کی بارش کردی جاتی ہے۔ بنا یہ دیکھے کہ وہ ڈالرز مجوزہ منصوبوں میں لگائے جارہے ہیں یا حکمرانوں کی جیبوں میں جارہے ہیں۔ ماضی میں جب جب امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی، اس کے مفادات کا حصول پاکستان سے منسلک ہوا، امریکا خود بھی ڈالرز بدست ہمارے لیے سنگ مرمر کی قبریں اور آئی ایم ایف جیسے ادارے پختہ قبرستان تعمیر کرتے چلے گئے جن میں اگنے والے پودوں، درختوں اور سبزوں کی لہلہاہٹ دیکھ کر ہم باغ باغ ہوتے رہے لیکن جب مفادات پورے ہوئے تو وہ مالیاتی شکنجے کسے گئے کہ ان قبرستانوں سے چیخوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیا۔
جنرل ایوب خان کے عہد سے لے کر تاحال آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کو جھک کر سلام کیا جارہا ہے اس حدتک کہ پیشانی زمین پر لگ کر گھستے گھستے بدنماداغ بن کر رہ گئی ہے۔ اپنے اقتدار کی برقراری کے لیے سجدے کی اس حالت میں حکمران طبقے کو خبر ہی نہیں اور اگر خبر ہے بھی تو یہ ان کا موضوع نہیں کہ اس ملک میں پیدا ہونے والی دولت آئی ایم ایف جیسے ادارے کھینچ کھینچ کر بیرون ملک لے کر جارہے ہیں جس کے بعد اس ملک کے عوام کے لیے غربت، بھوک، بے روزگاری، بیماری، لاعلاجی اور ایڑیاں رگڑتی موت کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔