عہدِ کوروناکا دوسرا رمضان المبارک

322

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز ہو گیا ہے۔ کورونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں احتیاطی تدابیر اور پابندیوں کے ساتھ یہ دوسرا ماہ ِ رمضان ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ لیلۃ القدر کا مہینہ ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ رمضان کو نیکیوں کا موسم بہار بھی کہا جاتا ہے۔ اس ماہ کی فضیلت کے باعث مسلمان تیس دن تک جم کر عبادت کرتے ہیں۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عبادات کرکے نیکیاں کمائے۔ تراویح، سحر وافطار اور شب بیداری کی اضافی عبادات بندگی کے نشے کو دوآتشہ کرتی ہیں۔ روزہ داروں کو افطار کرانے کی ایک دوڑ بندگان خدا میں شروع ہوتی ہے۔ ہر اہل خیر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دستر خوان میں بکھری نعمتوں میں کسی اور کو شریک کرکے اضافی ثواب کمائے۔ دوسال سے رمضان المبارک ماضی سے قطعی مختلف انداز اور ماحول میں جلوہ گر ہورہا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ کورونا سے بچائو کی تدابیر میں سب سے اہم گھروں میں رہنا ہے۔ کچھ لوگ تو خود گھروں میں رہ کر احتیاط کرتے ہیں مگر اکثریت کو گھروں میں بند رکھنے کے لیے لاک ڈائون کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لاک ڈائون سے کاروبار حیات مکمل یا جزوی طور پر معطل ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ زد دہاڑی دار طبقے اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں پر پڑتی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو دن بھر کمائی کرتا ہے اور رات کو اپنا چولھا جلاتا ہے۔ ایسے شخص کو روزانہ کی بنیاد پر محنت کے تیشہ ٔ فرہاد سے رزق اور مقدر کی ایک نئی نہر کھودنا پڑتی ہے۔ کسی دن کام نہ چلے تو یہ اس شخص کے لیے کس قدر مشکل کا دن ہوتا ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ لاک ڈائون کے باعث معاشرے کا ایک بڑا طبقہ شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ رمضان المبارک کی پہچان اجتماعی عبادات پر گزشتہ برس کی نسبت کم مگر کسی حد تک پابندیاں ہیں۔ اس ماحول اور کیفیت کے رمضان کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک نیا ماحول دے کر شاید اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما رہا ہے۔ مشکل کے ان لمحوں میں وہ کس طرح اپنے ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔
رمضان المبارک کی پہچان جہاں عبادات ومناجات ہیں وہیں ہمارے ہاں رمضان المبارک کو مال بنانے کا ایک ذریعہ بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس ماہ مقدس میں تاجر حضرات ناجائز منافع کمانے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ گیارہ مہینے کی کسر اس ایک مہینے میں پوری کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں رمضان میں قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یہ قطعی عجیب رویہ صرف ہماری ہی پہچان ہے۔ اس بار بھی جہاں ایک طرف کورونا کا جن دندناتا پھر رہا ہے وہیں مہنگائی کا عفریت بھی اپنے وجود کا پوری قوت سے اظہار کر رہا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں رمضان سے پہلے جس سطح پر تھیں یکم رمضان سے وہ سطح غیر معمولی حد تک بلند ہو چکی ہے۔ کچھ اشیا یا تو غائب کی جا رہی ہیں یا انہیں عام روزہ دار کی دسترس سے باہر کیا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں صرف اشیا کی طلب اور کھپت بڑھ گئی ہے اس کے سوا کون سی اُفتاد آن پڑی ہے کہ قیمتیں پر لگا کر اُڑنے لگی ہیں۔ طلب اور کھپت بڑھنے سے کاروباری لوگوں کا منافع بھی بڑھ جاتا ہے اور یوں اس خیر میں عام آدمی کو ریلیف کے ذریعے نہ سہی قیمتیں معمول کی سطح پر رکھ کر شریک کیا جا سکتا ہے مگر مجال ہے ہمارے کاروباری لوگ یہ ہمدردانہ انداز اپنائیں۔ ان کے سر پر ایک دھن سوار ہے کہ رمضان میں لوگوں کی کھال کس طرح ادھیڑی جائے۔ موت اور آفت سامنے کھڑی ہے اور ہم دنیا کی بے ثباتی کی حقیقت کو جاننے کے بجائے ہر جائز وناجائز طریقے سے مال ومتاع کمانے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے اندر کا منافع خور کورونا کے باوجود پوری قوت سے دندنا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ اس بار ہم اجتماعی طور پر خوف خدا کا شکار ہوکر پہلے ہی سے مشکلات کا شکار خلق خدا کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کا راستہ اختیار کریں۔
دنیا میں کتنے ہی نامور لوگ موذی وبا کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکا کا ٹائم میگزین کورونا میں مرنے والے نامی گرامی لوگوں کی فہرستیں، تعارف اور تصویر کے ساتھ شائع کرتا رہا ہے۔ جسے دیکھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ کورونا کی وبا معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ہمارے ہاںکسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کورونا میں جاں سے گزر جانے والے اپنے شہ دماغوں کی باقاعدہ فہرست مرتب کرے۔ ہر انسان قیمتی اور اپنے عزیزوں کے لیے سرمایہ ہے مگر کچھ لوگ معاشرے کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں ان کی موت معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ڈیڑھ سال کی فہرست مرتب کی جائے تو معاشرے کے کتنے ہی فعال، نامور لوگ اور معاشرے کے لیے کارآمد لوگ اس وبا کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ نہ مال ودولت کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتی ہے نہ نام اور صلاحیت دیکھ کر اس کے قدم رک رکتے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں کتنے ہی متحرک اور نامی گرامی پاکستانی اس وبا کے باعث جہان فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ تاجر حضرات کو بھی اور عام فرد کو بھی اس عارضی دنیا کے لیے مال کمانے کی دوڑ کم کرکے خلق خدا کی بھلائی کے لیے ماہ مقدس کو وقف رکھنا چاہیے اور عوام کو بھی حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔