مسلمان اور حبِ رسولؐ کے تقاضے

262

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے بعد عمران خان مسلم دنیا کے دوسرے حکمران ہیں جنہوں نے توہین رسالت کے مسئلے پر کھل کر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ورنہ مسلم دنیا کے اکثر حکمران اس مسئلے پر خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمران خان نے دو روز پیشتر اس سلسلے میں پھر اپنے موقف کو ہرادیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مغربی دنیا کے انتہا پسند توہین رسالت پر مسلمانوں سے معافی مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرمؐ ہمارے دلوں میں بستے ہیں ان کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ عمران خان نے مطالبہ کیا کہ ہولو کاسٹ کی طرح توہین رسالت پر بھی سزا مقرر کی جائے۔ مغرب کے لیے توہین رسالت کبھی ’’عادت‘‘ تھی مگر مغرب نے اسے اب ’’کھیل‘‘ بنا لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے مغرب کی نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ مغرب کی یہ نفرت ہمارے لیے اذیت ناک مگر قابل فہم ہے لیکن رسول اکرمؐ کے ساتھ تعلق کے تقاضوں کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ خود مسلمانوں کی عظیم اکثریت حب رسولؐ کے تقاضے پورے نہیں کررہی ہے۔ مسلمان کی حیثیت رسول اکرمؐ کے ساتھ ہمارے تعلق کی دو بنیادی شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اکرمؐ سے غایت درجے کی عقیدت ہو اور دوسرا یہ کہ ہمیں رسول اکرمؐ سے غایت درجے کی محبت ہو۔ عقیدت کا تقاضا جانثاری ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو رسول اکرمؐ سے غایت درجے کی عقیدت عطا کر رکھی ہے۔ چناں چہ کمزور سے کمزور مسلمان بھی رسول اکرمؐ اور آپؐ کی حرمت پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص کمزور سے کمزور مسلمان کے سامنے بھی رسول اکرمؐ کی توہین کردے تو وہ مسلمان اس پر جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان رسول اکرمؐ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر وہ محبت کے دعوے کو سچا ثابت نہیں کر پارہے۔ جس طرح عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع ہے اور مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کے لیے جان تو دے سکتے ہیں مگر وہ رسول اکرمؐ کا اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی اکثریت کا طرزِ عمل یہ ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کی بعض چھوٹی سنتوں کو تو حرزِ جاں بنایا ہوا ہے مگر بڑی بڑی سنتوں کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ داڑھی رکھنا رسول اکرمؐ کی سنت ہے اور ہر مرد مسلمان کو داڑھی ضرور رکھنی چاہیے مگر رسول اکرمؐ غیبت کو سخت ناپسند کرتے تھے لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ داڑھی تو رکھتے ہیں مگر غیبت سے نہیں بچ پاتے۔ دیکھا جائے تو ہماری پوری زندگی چلتی پھرتی غیبت کانفرنس بنی ہوئی ہے۔ جہاں دو مسلمان جمع ہوتے ہیں تیسرے مسلمان کی غیبت کرتے ہیں، حالاں کہ قرآن مجید نے غیبت کے بارے میں کہا ہوا ہے کہ غیبت کرنے والا شخص گویا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں مسلمان ہاتھ سے کھانا کھانے کی سنت کو تو زندہ رکھے ہوئے ہیں مگر وہ غصے سے نہیں بچ پاتے، حالاں کہ غصہ اسلام میں حرام ہے اور رسول اکرمؐ نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی ذاتی بات پر غصہ نہیں فرمایا۔ آپؐ کو غصہ آتا تھا تو اس وقت جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی تھی۔ حدود اللہ کو پامال کیا جاتا تھا۔ مرد مسلمان کا حال یہ ہے کہ اسے ذاتی اور انفرادی باتوں پر غصہ آتا ہے اور جب ہمیں غصہ آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ جس شخص پر ہمیں غصہ آرہا ہے اسے فنا کردیں۔ یہ طرزِ فکر رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے خلاف ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہؐ کا ایک بہت ہی بڑا پہلو یہ ہے کہ آپؐ دنیا میں رہے مگر آپؐ ہمیشہ دنیا سے بلند رہے۔ آپؐ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ یاد الٰہی اور حب خداوندی میں بسر ہوا۔ لیکن مسلمانوں کی عظیم اکثریت دنیا کی محبت میں گرفتار ہے۔ یہاں ہم میں سے کسی کو رسول اکرمؐ کے اتباع کا خیال تک نہیں آتا۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ آج ہم رسول اکرمؐ کے اس ارشاد مبارک کو حقیقت میں دیکھ رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے دو حصے ہیں، ایک حصے میں مال مال کی فراوانی ہے اور اس طبقے کے لیے مال کی فراوانی فتنہ بن گئی ہے۔ یہ طبقہ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بننا چاہتا ہے۔ اس کا زندگی میں صرف ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح مال میں اضافہ کیا جائے اور مال سے فراہم ہونے والی عیش و عشرت کو آخری حد تک بڑھایا جائے۔ دوسری طرف امت مسلمہ کا وہ حصہ ہے جو مال کی قلت میں مبتلا ہے اور اس طبقے کے لیے مال کی قلت ایک فتنہ بن گئی ہے۔ اس طبقے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں حضور اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ایسی عسرت اور تنگ دستی سے اللہ کی پناہ طلب کرو جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ امت مسلمہ ہر دو طریقے سے مال کے فتنے میں مبتلا ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت کا مشہور واقعہ
ہے کہ ایک بار آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ نظر آیا۔ رسول اکرمؐ بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی رک گئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے پوچھا تم میں سے کوئی اس بکری کے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بچہ ہے اوپر سے مرا ہوا بھی ہے۔ اسے تو کوئی مفت بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا رسول اکرمؐ کے لیے واقعتاً بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ ہمارے لیے دنیا ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔ ہم جیتے ہیں تو دنیا کے لیے، مرتے ہیں تو دنیا کے لیے، ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تو دنیا کے لیے، کاروبار کرتے ہیں تو دنیا کے لیے، یہاں تک کہ اب ہمارے تعلقات بھی ’’دنیا مرکز‘‘ ہوگئے ہیں۔ ہم سب سے کسی کو عہدہ چاہیے، کسی کو منصب درکار ہے، کسی کو شہرت عزیز ہے، ہمارا کوئی بھی عمل خدا اور آخرت کے لیے نہیں ہے۔ رسول اکرمؐ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ دنیا اگر مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ مگر آج مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ کافر اور مشرک قوموں کی زندگی پر ہماری رال ٹپکتی ہے۔ پاکستان میں ایک حکمران آتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو امریکا اور یورپ بنانا چاہتا دوسرا حکمران آتا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو جاپان اور کوریا بنانا چاہتا ہے۔ عمران خان کہنے کو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر وہ کبھی چین کو رول ماڈل بناتے ہیں کبھی اسکینڈی نیویا کے ممالک کو ہمارے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کی ریاست مدینہ خیالی پلائو کے سوا کچھ نہیں، ان کا مسئلہ بھی صرف دنیا کی مادی ترقی ہے۔ ہمارا کوئی حکمران نہیں کہتا کہ آئیے ہم سیرت طیبہؐ کو اپنے لیے نمونہ عمل بناتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں چند کروڑ کیا چند لاکھ مسلمان بھی ایسے نہیں جو حقیقی معنوں میں حب رسولؐ کے تقاضے پورے کررہے ہوں۔ مسلمان اگر خود حب رسولؐ کے تقاضے پورے کررہے ہوتے تو کسی مغربی ملک یا اس کے باشندوں کو توہین رسالتؐ کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی اور ہوتی تو مسلمان اس کا ایسا منہ توڑ جواب دیتے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ یہ بات طے ہے کہ مسلمان حب رسولؐ کے تقاضے پورے کیے بغیر کبھی عروج کی طرف نہیں جاسکتے۔