حالات خراب ہونے کی ذمہ دار حکومت ہے،اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ

130

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ملک کے ممتاز علماکرام اور اتحاد تنظیمات ِ مدارس دینیہ پاکستان کے مرکزی قائدین مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر،مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبد المالک، علامہ سید ریاض حسین نجفی، صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، مولانا محمد یٰسین ظفر، ڈاکٹر مولانا عطاالرحمن، مولانا محمد افضل حیدری نے اپنے مشترکہ بیان میں تحفظ ناموسِ رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے کارکنوں پر لاہور میں سفاکانہ فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احمقانہ اقدام ملک کو بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے، اول تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کو بذاتِ خود گستاخانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عملی اقدام کرنا چاہیے تھا لیکن اگر “تحریک ِلبیک “کے متوجہ کرنے پر ایک معاہدے پر خود وزرانے دستخط کیے تو اس معاہدے کی پاسداری ہی میں ایسے اقدامات ضروری تھے جو مسلمانوں کی غیرتِ اسلامی کا کم از کم تقاضا ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ اس معاہدے کی پاسداری کرنے کے بجائے اس کی مدت بڑھائی گئی اور دوسری مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک کے سربراہ کو گرفتار کر کے تناؤ کا ماحول پیدا کر دیا گیا۔ اس واقعے پر ملک بھر میں رد عمل کی جو لہر اٹھی ہے، اور اس کے نتیجے میں ملک جس طرح بدامنی کی فضا کی طرف جا رہا ہے، اس کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عاید ہوتی ہے۔قبل ازیں جامعہ دار العلوم کراچی میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی دعوت پر کراچی کے ممتاز علماکے اجلاس میں مولانا عبید اللہ خالد( جامعہ فاروقیہ کراچی)، مولانا امداد اللہ( جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی)، مولانا انس( صاحبزادہ مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید)، مولانا اعجاز مصطفی (امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی)، مولانا سیف اللہ ربانی (جامعہ بنوریہ کراچی)، قاری محمد عثمان اور دار العلوم کراچی کے اکابر اساتذہ نے شرکت کی اورشرکا نے مولانا محمد حنیف جالندھری، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے بھی ٹیلیفون پر یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس موقع پر اتحادِ تنظیمات مدارس پاکستان کی طرف سے مشترکہ موقف قوم کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔مولانا محمد حنیف جالندھری نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ارکان سے رابطہ کر کے مجلس کے مندرجہ ذیل بیان پر اتفاق حاصل کیا۔اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے رہنماؤں نے کہاکہ احتجاج کے موقع پر جن لوگوں نے پولیس کے ساتھ تشدد کیا، یقینا وہ بھی قابل مذمت تھا، لیکن اس کے جواب میں براہِ راست فائرنگ کے اقدام کو اپنے ہی عوام سے دشمنی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس واقعے پر ملک بھر میں رد عمل کی جو لہر اٹھی ہے، اور اس کے نتیجے میں ملک جس طرح بدامنی کی فضا کی طرف جا رہا ہے، اس کی تمام تر ذمے داری حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ اب بھی اگر حکومت معقولیت اپناتے ہوئے ملک کو اس بدامنی، بے چینی اور اضطراب سے بچانا چاہتی ہے تو وہ اپنے شہریوں پر گولیاں چلانے کے بجائے ان کے ساتھ فوراً مذاکرات شروع کرے اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کر کے پوری قوم کا دل ٹھنڈا کرے۔