عافیہ اور دیگر بے گناہوں کی رہائی امریکا پر لگے سیاہ داغ دھونے کا موقع

599

سیاست میں دہرامعیارکوئی نئی بات نہیں۔بات انسانی حقوق کی ہوتودعووں اورحقائق کے درمیان فرق بڑھ جاتاہے۔اس حوالے سے امریکاپرغیر معمولی نکتہ چینی معمول کی بات ہوتی جارہی ہے جوکسی ایک مقام پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاروناروتا رہتاہے اوردوسرے مقام پر،اپنے مفادات کی خاطر،انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کامرتکب ہونے میں نہ صرف کوئی عارمحسوس کرتاہے بلکہ اس کودرست بھی گردانتاہے۔ کیاانسانی حقوق کے حوالے سے یہ تنقیددرست اورصحیح ہے؟ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ایک رپورٹ اس سوال کابہتر جواب دے سکے گی۔کم ہی حکومتیں انسانی حقوق کاسوال اس طرح اٹھاتی ہیں جس طرح امریکا اٹھاتارہاہے۔امریکانے مختلف معاملات میں انسانی حقوق کامعیاراپنے لیے کچھ اس اندازسے مقررکررکھاہے کہ اس کے ناقدین بھی اب اس کی کارکردگی کواس معیارکے پیمانے ہی سے ناپنے لگے ہیں۔
کارٹردورسے اب تک امریکاانسانی حقوق کوخارجہ پالیسی کی بنیادبناتاآیاہے یعنی اگرکوئی ملک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کامرتکب ہورہاہوتوامریکاسے اس کے تعلقات شدیدمتاثرہوتے ہیں۔ عوام بھی اس حوالے سے پالیسی کی تبدیلی کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہرامریکی حکومت اسی بنیادپرخارجہ پالیسی ترتیب دیتی آئی ہے۔اسی بنیادپردوست اور دشمن کاتعین ہوتاہے۔اس وقت امریکی محکمہ خارجہ میں انسانی حقوق سے متعلق سیکشن شایداس نوعیت کادنیامیں سب سے بڑا بیوروہے۔ بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر امریکی محکمہ خارجہ کاانتہائی اہم حصہ ہے۔اس کے سربراہ انسانی حقوق کے سابق وکیل اورنیویارک میں قائم تنظیم ہیومن رائٹس فرسٹ کے سربراہ مائیکل پوزنرہیں۔ بیوروآف ڈیمو کریسی،ہیومن رائٹس اینڈلیبرہرسال مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے مضحکہ خیز رپورٹس جاری کرتاہے مگرکبھی اس حوالے سے اپنائے جانے والے دہرے معیارکی بات نہیں کرتا۔ان رپورٹس میں صاف جھلکتا ہے کہ جن ممالک سے امریکی مفادات جڑے ہوئے ہوں ان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی کوئی پروانہیں کی جاتی۔امریکاانسانی حقوق کے حوالے سے جورپورٹس جاری کرتاہے انہی کی بنیادپردنیاکویہ دیکھنے کاموقع بھی ملتاہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے اداروں کوکس طوراستعمال کرتاہے۔
امریکاکے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نے22 جنوری کوجورپورٹ جاری کی اس میں ایسے کئی نکات موجودہیں جن کی مدد سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکی پالیسیوں میں دہرامعیارکس حدتک ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے لکھاہے کہ:
٭کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکامیں،مختلف بہانوں سے،لوگوں کو غیر معمولی حدتک پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورسزائیں سنانے کے معاملے میں بھی نسل پرستی کااظہارکیاجاتاہے۔
٭امریکامیں ہرسال محض داخلی سلامتی کے نام پرتین لاکھ سے زائدافرادکوتحویل میں لیاجاتاہے جبکہ ان سے ملک کی سلامتی کو بظاہرکوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
٭گوانتاناموبے میں امریکی جیل یاحراستی مرکزمیں سیکڑوں افرادکوکسی جوازاورقانونی کارروائی کے بغیرحراست میں رکھاگیا ہے۔اس حراستی مرکزکووعدے کے باوجودبندنہیں کیا گیا۔
٭امریکامیں ملٹری ٹریبونل کے تحت بھی کارروائی ہوتی ہے مگران ٹریبونل کی تشکیل اوران کے طریق کارمیں شدیدنوعیت کی خامیاں اورکمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
٭امریکی جیلوں اورحراستی مراکزمیں جن لوگوں کوتشددکانشانہ بنایاجاتاہے، وہ اگرانصاف کے حصول کے لیے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاناچاہیں توان کی راہ میں دیوارکھڑی کی جاتی ہے۔
٭تازہ ترین اعدادوشماربتاتے ہیں کہ امریکامیں کم وبیش4کروڑ60لاکھ افرادغربت کی زندگی بسرکررہے ہیں۔المناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں نسلی اورثقافتی فرق نمایاں ہے۔سیاہ فام اورغیرمغربی نسلوں میں غربت کی سطح انتہائی بلندہے۔
یہ حقائق ہیومن رائٹس واچ نے جاری کیے ہیں جوامریکی تنظیم ہے جس پراکثریہ تنقیدکی جاتی ہے کہ وہ امریکی معاشرے اور حکومت کی خامیوں کواجاگرکرنے سے گریزکرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی بعض اوقات کارگرثابت ہوتی ہے کہ اورکئی ممالک کی پالیسیوں کودرست کرنے میں اس سے خاصی مددملی ہے مگربہتر یہ ہوگاکہ امریکی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے اپناقبلہ بھی درست کرے۔امریکی ریکارڈکودرست کرنے کیلئے صرف دواہم واقعات کی طرف توجہ مبذول کرواناانتہائی ضروری ہے:
عافیہ صدیقی کامقدمہ نہ صرف مشرف دورسے لے کر موجودہ حکومت بلکہ امریکی محکمہ انصاف اورارباب اقتدار کے لیے بھی سب سے بڑاکلنک کاٹیکہ ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصول اقتدار کے لیے عافیہ صدیقی کانام بڑے زورشورسے استعمال توکیا لیکن اقتدارکی ٹوپی سرپررکھتے ہی ٹوپی کے نیچے دماغ اوردل سے محوکردیالیکن امریکی محکمہ انصاف نے بھی اس مقدمے میں، اس جھوٹے مقدمے میں اس دھان پان سی اورتین معصوم بچوں کی ماں کوباوجودجسمانی،دماغی تشددکے 86سال کی سزاسناکرپابندسلاسل کر رکھا ہے۔
دوسری مثال بھی کراچی کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی گوانتا نامو میں قید کی ہے، جسے امریکی اہلکاراپنی غلطی کوچھپانے کے لیے اس کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
جوبائیڈن امریکی صدرمنتخب ہونے پر اور ہمارے ہاں عمران خان اعتمادکاووٹ لے کر پرتکلف عشائیوں میں شرکت کے موقع پرانصاف کے بہت بلندبانگ دعوے کرتے ہوئے نظر آئے، ان دونوں کو یہ بات ضرورذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ دونوں بے گناہ قیدی عافیہ صدیقی اور ٹیکسی ڈرائیورگزشتہ کئی برسوں سے بھوک ہڑتال پرہیں اورانہیں زندہ رکھنے کے لیے جبری طور پرادویات کے ذریعے خوراک دی جارہی ہے جبکہ ایک قیدی پرامریکی حکومت کوہرسال تقریباً ایک کروڑ40لاکھ امریکی ڈالرخرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جب انہیں اغواکیاگیاتھا،اس کے مقابلے میں آج ان کا وزن آدھاہوچکاہے اورایسالگتاہے کہ جبری طورپرغذا دیے جانے کے باوجودان کوجیل ہی میں ماردیاجائے گا۔
امریکی صدرجوبائیڈن نے بطورسینیٹرایک مکمل مدت گزاری۔8سال امریکاکے نائب صدررہے اوراب صدارتی انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ کوہراکر46ویں صدرکی حیثیت سے حلف اٹھالیاہے۔جنوری2009 میں آپ نے اس وقت اوباماکے ساتھ نائب صدرکاحلف اٹھاکرگوانتانا موبے کو بندکرنے کے عزم کااظہارکیاتھا۔اسی ہفتے ایک صدارتی حکم نامہ بھی جاری ہواتھاجس میں گوانتانامو میں ضابطہ اخلاق اورآئینی اقدارکوبحال کرنے کاوعدہ کیاگیاتھا۔سی آئی اے کی جانب سے کیے جانے والے تشددپر2014میں سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی جاری کردہ رپورٹ بھی آپ کی نگرانی میں ہی مکمل ہوئی تھی۔اس رپورٹ میں اس ٹیکسی ڈرائیورکانام بھی موجودتھا۔
اس رپورٹ میں یہ واضح طورپربتایاگیاتھا کہ اس ٹیکسی ڈرائیورکوکسی حکم کے بغیرافغانستان کے تاریک قیدخانے میں540 دنوں تک تشددکانشانہ بنایا گیا۔ نجانے اب اس بات کی کوئی اہمیت بھی ہے یانہیں لیکن رپورٹ میں اس عمل کی تصدیق کی گئی کہ اس قیدی کودورانِ تشددایک اندھیرے گڑھے میں لٹکاکررکھاگیاتھاجہاں دن اوررات کافرق کرنامشکل نہیں ناممکن تھااوراب امریکی طبی ماہرین کے مطابق اس تشددکے دوران قیدی کے کندھے اپنی جگہ سے باقی ماندہ ساری عمر کے لیے ہٹ چکے ہیں اورجسم کی کئی ہڈیاں بھی بیکارہوکر اپنا کام کرناچھوڑچکی ہیں گویااس وقت یہ قیدی نیم معذورہوچکاہے۔
جوبائیڈن اورعمران خان کوشاید اس کااندازہ نہ ہو کہ یہ تشدد کس قسم کاہوتاہے اوریقیناًان کواس صورتحال کا اندازہ نہیں ہوگاجس میں قیدی کو ساتھ والے کمرے سے کسی خاتون کی چیخ وپکار کی آوازیں آرہی ہوں اورقیدی کوبتایاجائے کہ یہ خاتون تمہاری بیوی ہے اوراگرتم نے ان کی بات نہ مانی تووہ تمہاری بیوی کوزیادتی کانشانہ بنائیں گے اوربعدازاں تمہاری بیوی کوتمہارے اس بچے سمیت جس کو تم آج تک دیکھ نہیں پائے،قتل کردیں گے۔ عافیہ صدیقی اوریہ بے گناہ ٹیکسی ڈرائیورتواس بے پناہ تشددکابدلہ بھی نہیں چاہتے لیکن میں چاہتاہوں کہ لوگوں کوپتاچلے کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا گزری اوراسے کس طرح چھپادیاگیا۔ہوسکتاہے کہ اس طرح دیگر افراداس وحشیانہ اورانسانیت سوزتشدد سے بچ جائیں۔ امریکی تاریخ سے تشددکایہ داغ مٹایا نہیں جا سکتا اور قصر سفیداوران کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ انصاف اس معاملے میں اپنی آنکھیں بندنہیں کرسکتے،جیسے کچھ ہواہی نہیں۔
جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں بڑے تواترکے ساتھ خاندان کی اہمیت کاذکربھی کیااوران کے سننے اوردیکھنے والوں نے جوبائیڈن کی آنکھوں کی نمی سے ان کے دل پر لگے ہوئے اس زخم اورچوٹ کوبھی بری طرح محسوس کیا۔ مجھے پورایقین ہے کہ جوبائیڈن اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے بیٹے کوکبھی نہ دیکھ پانے کااحساس کیساہوتاہے۔عافیہ صدیقی اوریہ ٹیکسی ڈرائیورکے بچے بھی اب سن بلوغت کوپہنچ گئے ہیں لیکن اس دوران ان بچوں کی رہنمائی کے لیے یہ دونوں موجودنہیں تھے اوران بچوں کا پورابچپن ان کے بغیرکس قدرمحرومی میں گزراہوگااوروہ آج بھی ہردم کسی ایسے معجزے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ کب وہ اپنے وجودمیں اس حقیقی محبت کی گرمی سے گلے لپٹ کراس وجودمیں گم ہوجانے کی خواہش کریں گے اوریہ بدنصیب قیدی بھی توہرلمحہ اسی آس پراپنی زندگی کے سانس لیتے ہوں گے کہ کب ان کی آنکھوں کانورمنورہوکران کی باقی زندگی کی ظلمتوں کامداواکرے گا۔
میں یہاں گوانتانامو بندکرنے میں آپ کی ناکامی پربات نہیں کرناچاہتا،نہ ہی یہ بتاناچاہتاہوں کہ اب اسے بند کرناآسان ہوگالیکن یہ بات میرے لیے امید افزاہے کہ امریکا کی قیادت ایک بارپھرایک ایسے صدرکے ہاتھ میں ہے جوانصاف اورقانون کی عملداری پریقین رکھتاہے،جس نے برملااپنی انتخابی مہم میں انسانی حقوق کی بحالی کاعزم کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے اسلحہ کے ایسے خریدارجس نے آپ کی اسلحہ کی ڈوبتی ہوئی صنعت کودوبارہ زندگی عطاکرتے ہوئے 30 ہزارامریکیوں کوبیروزگار ہونے سے بچایا، انسانی حقوق کے نام پراس کوسخت ترین وارننگ دیتے ہوئے اسلحہ کی ترسیل بندکرنے کااعلان کیا۔
جناب صدر، آپ ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی کئی سانحات کاسامناکیاہے۔آپ نے1972ء میں ایک حادثے میں اپنی بیوی اوربیٹی کی جدائی کا غم برداشت کیااورپھردماغی ٹیومرکے ہاتھوں اپنے بیٹے کی وفات کاصدمہ اٹھایا۔آپ نے اپنی زندگی میں بے تحاشادردبرداشت کیے ہیں۔ان بے گناہ قیدیوں کی زندگی کے جیلوں میں گزرے ہوئے طویل ماہ وسال کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں،ایک ایساخواب جس نے ان کے خاندان اوران کے بچوں کے علاوہ سارے پاکستان کے شہریوں کوبھی اپنے شکنجے میں جکڑاہواہے۔مجھے امیدہے کہ آپ ان بے گناہوں اوران سے متعلقہ لواحقین کے علاوہ کروڑوں پاکستانیوں کادردبھی سمجھ سکیں گے جنہوں نے آپ کوواحد سپر پاوربنانے کے لیے 86ہزارجانوں کی قربانیوں کے ساتھ 132 ارب ڈالرزکاخطیرنقصان بھی برداشت کیااوراب بھی نہ صرف آپ کے چہیتے اتحادی بھارت،جس نے آپ کی موجودگی میں پاکستان کونقصان پہنچانے کے لیے افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کرنے کے لیے اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں بلکہ اب بھی ان کاسرپرست اورمربی کاکرداراداکر رہا ہے جس کے کئی مرتبہ حقیقی شواہدبھی آپ کے علاوہ دنیابھرکے دیگرممالک کوفراہم کیے گئے ہیں اورہم آج بھی اپنے جان ومال کی قربانیوں سے ان کامقابلہ کررہے ہیں لیکن اس کے باوجودآپ کی افواج کوافغانستان سے بخیروعافیت نکالنے کے لیے دوحہ معاہدہ میں کلیدی کرداراداکیاہے۔میں جوبائیڈن کویقین دلاتاہوں کہ وہ ان بے گناہ قیدیوں کورہاکرکے امریکی محکمہ انصاف اورانتظامیہ پرلگے ہوئے بدنام زمانہ دھبے کودورکرکے جہاں تاریخ میں اپنانام درج کروالیں گے وہاں پاکستانیوں کے دل جیت کرساری دنیاکوامن کابہترین پیغام بھی دے سکیں گے۔