’’ہم زبان‘‘ کے تحت ’’ماں‘‘ کے عنوان سے عالمی مشاعرہ

261

معروف بزم علم و ادب ’’ہم زبان‘‘ کے زیر اہتمام بذریعہ وڈیو لنک ’’ماں‘‘ کے عنوان پر عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا کے 9 ممالک سے 25 شعرا نے اپنے منظوم کلام کے ذریعے ماں کے مقدس رشتے کو خراج تحسین پیش کیا۔ مشاعرے کی صدارت عالمی شہرت یافتہ شاعرہ ریحانہ روحی نے کی جب کہ نائب صدر کے فرائض کراچی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اور مصنفہ زیب النسا زیبی نے انجام دیے۔ نظامت ہم زبان کے صدر معروف شاعر ڈاکٹر محمد سعید فضل کریم بیبانی نے کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر محفل ریحانہ روحی نے بتایا کہ محض 3 سال کی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا اور آج بھی ان کا دھندلا سا عکس اور یادیں میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے اپنا کلام سنا کر سامعین کے دل گرمائے۔ ہم زبان کے صدر ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی نے کہا کہ اردو شاعری گل و بلبل کے تذکروں سے بھری پڑی ہے، مگر ماں کی عظمت پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عظیم ہستی کو اردو ادب میں مناسب جگہ دی جائے، جس کی وہ حقدار ہے۔ مشاعرے کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ برمنگھم (برطانیہ) میں مقیم طالبہ آمنہ محمد علی نے بڑی خوش الحانی سے قرات کی، جس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی عثمان محمد کے ساتھ مل کر نعتیہ کلام سنایا۔ اسلام آباد سے صوفیہ جبین اور وردہ نجم نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ ان کے بعد اسلام آباد ہی سے معروف مصنفہ فوزیہ عباس نے ماں کی عظمت کے حوالے سے مختصر مقالہ پیش کیا۔ مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا اور شعرا نے جی بھر کے اپنا کلام سنایا۔ جن شعرا نے ماں کی محبت کو منظوم انداز میں پیش کیا، ان کے نام یہ ہیں۔
کراچی سے صدر مشاعرہ ریحانہ روحی، نائب صدر زیب النسا زیبی، شگفتہ شفیق، ڈیرہ غازی خان سے ادبی تنظیم آنچل کی بانی ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، لاہور سے رشیدہ دستگیر، سائرہ حمید تشنہ، کلور کوٹ سے منظر انصاری، سعودی عرب سے کئی ادبی تنظیموں کے روح رواں زمرد سیفی اور ہم زبان کے صدر ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی، مانچسٹر (برطانیہ) سے نغمانہ کنول، شکاگو سے دائرہ حمد و نعت کے صدر سید محسن علوی، ہم سخن شکاگو کے صدر رشید شیخ، غوثیہ سلطانہ، کینیڈا سے صالح اچھا، پروین سلطانہ صبا، رحمان خاور، جرمنی سے طاہرہ رباب الیاس، بھارت سے محشر فیض آبادی، ڈاکٹر شگفتہ غزل، احمد برقی اعظمی، ماہ نور، نور جمشید پوری، فوزیہ افسر ردا، چین سے ڈاکٹر محمد اعجاز کشمیری اور موزمبیق سے شاہد خاکی۔ جدہ سے صحافی مسرت خلیل جبکہ مکہ مکرمہ سے محمد عامل عثمانی بھی مشاعرے میں شریک تھے۔ مجلس عمل کے چیئرمین عامر خورشید رضوی نے بھی اس موقع پر خطاب کیا اور علامہ اقبال کی اپنی والدہ سے بے پناہ محبت کو اجاگر کیا۔
فوزیہ عباس نے اپنے مقالے میں کہا کہ انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی عظیم ہستی ماں ہے جسے ستر ماؤں سے زیادہ شفقت رکھنے والے خدا نے تخلیق کر کے اس کے پاؤں تلے جنت رکھ دی۔ ماں کی آغوش میں پیغمبروں اور ولیوں نے پرورش پائی۔ انہوں نے کہا کہ ماں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبے کو سمجھے۔ انہوں نے کہا کہ نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔
مشاعرے سے منتخب کچھ اشعار
ریحانہ روحی (صدر مشاعرہ)
یہ کائنات جو ماں سے شروع ہوتی ہے
پھر اسکے بعد بھی یہ کائنات ماں تک ہے
———
ایسے ممتا کی صفت ماؤں میں رکھی ہوئی ہے
جیسے ٹھنڈک سی کوئی چھاؤں میں رکھی ہوئی ہے
———
زیب النسا زیبی(نائب صدر مشاعرہ)
ماں سا دنیا میں کوئی بھی رشتہ نہیں
ہے فرشتے سے بڑھ کر فرشتہ نہیں
اور تو سارے رشتوں میں ہو گا مگر
ماں کے رشتے میں کوئی بھی دھوکا نہیں
———
ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی (ناظم مشاعرہ)
عام چاہت ہے کچھ اور، اور یہ ممتا کچھ اور
بحر الفت کو کوئی شخص نہ دریا سمجھے
ساری دنیا نے مجھے مان لیا ایک بزرگ
صرف ماں ہے جو مجھے آج بھی بچہ سمجھے
———
محسن علوی
آنکھوں میں جذب، روح کے اندر ہے میری ماں
بے نام چاہتوں کا سمندر ہے میری ماں
میں اسکی عظمتوں کو بیاں کس طرح کروں
میرے لیے بزرگ و قلندر ہے میری ماں
———
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
دکھ کے لمحوں میں مرا ایک سہارا ماں ہے
میں اگر ڈوبتی کشتی ہوں، کنارہ ماں ہے
اسکے قدموں میں جو جنت ہے تو مطلب یہ ہے
آسمانوں سے جسے رب نے اتارا، ماں ہے
———
سائرہ نسیم
حسیں رشتہ دنیا میں سب سے ہے ماں کا
کوئی اس کا ثانی ہوا ہے نہ ہو گا
———
ڈاکٹر محمد اعجاز کشمیری
دی توجہ نحیف تھا جب میں
زندگی ماں ہی کی بدولت ہے
———
نور جمشید پوری

تجھے ذرے سے پل میں اک نیا سورج بنا دے گی
تری ماں جب اکیلے میں تجھے دل سے دعا دے گی
اسی دن نام تیرا درج ہو جائے گا جنت میں
تری بخشش کی خاطر ہاتھ اپنے جب اٹھا دے گی
———
شاہد خاکی
جنت کی ہوائیں ہیں اے ماں تیرے آنچل میں
خوشیوں کی فضائیں ہیں اے ماں تیرے آنچل میں
فردوس کی بو پائی ممتا کی محبت میں
جب اشک بہائے ہیں اے ماں تیرے آنچل میں
———
محشر فیض آبادی
زندگی کی راہ میں اب ہر قدم پٹنے لگے
روز ہونے لگ گئے ہم پر ستم، پٹنے لگے
جب تلک تھی ماں رہی، بیوی پہ ہم حاوی رہے
جب سے ماں رخصت ہوئی، بیوی سے ہم پٹنے لگے
———
منظر انصاری
ہے جنت مری تیرے قدموں کے نیچے
ہے میرے نبی کی یہ واضح ہدایت
جو لوری ملی تھی مجھے بچپنے میں
شکر سے زیادہ تھی تیری حلاوت
———
رشید شیخ
مامتا سے ہے محبت، ماں کی عظمت کو سلام
پاؤں کے نیچے ہے جنت، ماں کی عظمت کو سلام
———
نازش دستگیر
ترا وجود مرے آس پاس ہے شاید
میں سوچتی ہوں کہ تو بھی اداس ہے شاید
پکارتے ہیں تجھے تیرے سب جگر گوشے
ترے بغیر یہ خوف و ہراس ہے شاید
———
احمد برقی اعظمی
ماں سے ہے گلزار ہستی میں بہار
ماں ہے ایسا گل، نہیں ہے جس میں خار
ماں کا کوئی بھی نہیں نعم البدل
یہ حقیقت ہے سبھی پر آشکار
———
شگفتہ شفیق
دل کو کب تھی خبر، دل کو کب تھا پتا
ماں نہ ہو گی تو میکہ اجڑ جائے گا
پیار سے ماں نے کھلائے تھے شگفتہ کو کبھی
جی ترستا ہے بہت ان ہی نوالوں کے لیے
———
طاہرہ رباب
آدم سے جب شروع کیا خالق نے یہ سفر
حوّا سی آپ رب نے بنائی ہے یہ ہی ماں
جنت کی وادیوں میں سجائی کمال ذات
یوں عرش سے زمین پہ آئی ہے یہ ہی ماں
———
فوزیہ اختر ردا
بس ترا چہرے پر نظر کرنا
جان جانا کہ مدعا کیا ہے
ہر بلا سے میں ہو گئی محفوظ
ماں کی ممتا کو اک دعا کیا ہے
———
زمرد سیفی
اپنی اولاد کے واسطے مثل جنت ہے ماں
رحمتوں، شفقتوں کی زمیں پر علامت ہے ماں
———
ڈاکٹر شگفتہ غزل

میں تو غموں کی دھوپ سے محفوظ ہوں غزل
ماں کی محبتوں کی ردا ساتھ ساتھ ہے
———
نغمانہ کنول
بن پیے جب سرور ہوتا ہے
ذکر ماں کا ضرور ہوتا ہے
تیری ہر ہر دعا تڑپتی ہے
سکھ اگر مجھ سے دور ہوتا ہے
———
غوثیہ غیاث الدین
میری ماں
میری ہستی تیرا نقش قدم
تری جب یاد آتی ہے تو پچھلے روز و شب سب لوٹ آتے ہیں
کبھی انگلی پکڑ کر دھیرے دھیرے ہر قدم چلنا
شرارت سے کبھی انگلی چھڑانا اور چھپ جانا
تو مجھ کو ڈھونڈ لاتی تھی
ترے آنچل کی خوشبو جنت الفردوس تھی گویا
تو کتنی سخت محنت کر کے سب کا پیٹ بھرتی تھی