EPWAکے مطالبات

98

ای او بی آئی ملازمین کے ایسوسی ایشن کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ای او بی آئی سے کرپشن کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب ڈیپوٹیشن میں آئے افسران کے بجائے براہ راست کی جائے۔ ڈیپوٹیشن والوں کو ادارے سے کمائی کا معلوم ہوتا ہے اور وہ 3/2 سال میں غیر قانونی طریقے سے امیروں کے کلب میں شامل ہوجاتے ہیں۔ علاقائی دفاتر کو فنڈز ٹارگٹ کے بجائے ادارے کی رجسٹریشن میں اضافہ کا ٹارگٹ کہا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ ورک فورس رجسٹرڈ ہوسکے۔سہارہ انشورنس کا قیام عمل میں لایا گیا، کاغذ میں آج بھی زندہ ہے۔ اسے فعال کرکے انشورنس کی سہولت تمام رجسٹرڈ ممبرز کو دی جائے۔ای او بی آئی کے رجسٹرڈ افراد ریٹائرمنٹ کے بعد جب پنشن کے لیے ریجن آفس میں کلیم داخل کرتے ہیں تو انہیں تیس سے چالیس دن میں پنشن ادائیگی شروع کی جائے۔ پنشنرز کو سال ڈیڑھ سال میں بھی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے جو کہ ای او بی آئی ایکٹ کے منافی ہے۔ادارہ کو ایس او پیز کے ذریعے چلانا غیر قانونی عمل ہے۔ ای او بی آئی ایکٹ میں ترمیم کو یقینی بنایا جائے۔ای او بی آئی سے رجسٹرڈ لوگ اپنی کنٹری بیوشن باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور یہ ای او بی آئی کے پاس امانت ہوتی ہے۔ ادارے کے ملازمین بھی اسی سے تنخواہ لیتے ہیں، ادارے کو پنشنرز کو عزت اور وقار کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور پنشن کو جلد از جلد پروسیس کرنا چاہیے۔ ریٹائرڈ لوگ جب کلیم داخل کروانے آتے ہیں اسی وقت کاغذات میں کمی پیشی کی نشاندہی کی جائے اور لکھ کر دیا جائے کہ کس کاغذ کی کمی ہے۔ بلاجواز تنگ نہ کیا جائے، اور کاغذ کی کمی کا بہانا بنا کر پنشن گرانٹ سے انکار نہ کیا جائے۔ای او بی آئی کو امین بنایا گیا ہے وہ اس میں خیانت نہ کرے۔ کلیم کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کے لیے ہر ریجن آفس میں الگ کائونٹر بنایا جائے تا کہ وہ اپنے فارم مکمل آسانی سے بھر سکیں اور پریشانی سے بچ سکیں۔
کنٹری بیوشن کی کمی یا جمع نہ ہونے کی ذمہ داری کلیم داخل کرنے والے کی نہیں ہے، یہ ای او بی آئی کی ہے اور اس کا مطالبہ کلیمینٹ سے کرنا جائز نہیں ہے، اسے بند کیا جائے۔ تجویز ہے کہ سال یا چھ ماہ میں ڈیٹا اپڈیٹ کیا جائے۔
کنٹری بیوشن کی وصولی یا جمع نہ ہونا کلیم داخل کرنے والے کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ ای او بی آئی کی ذمہ داری ہے اس کے علاوہ ملازمت کے ریکارڈ سے کنٹری بیوشن کی تصدیق اور بقایا جات کی بحالی یا وصولی بھی ای او بی آئی کی ذمہ داری ہے۔ کلیمینٹ سے دفتری ریکارڈ کا مانگنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اسے بند کیا جائے۔
ای او بی آئی کے ملازمین کی کارکردگی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ گزشتہ کچھ سالوں سے سیلری میں اضافہ تعطل کا شکار ہے اسے بھی حل کیا جانا چاہیے۔اجلاس میں ایپوا کے ممبر شفیق غوری، علمدار رضا، قاضی عبدالجبار، متین خان، رضا حیدر اور دیگر بھی موجود تھے۔