نادرا ملازمین کو بحال کیا جائے ، رضا خان

102

نادرا ملازمین کے رہنما رضا خان سواتی نے گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں جعلی انکوائریاں بنا کر چارج شیٹ دی گئی۔ انکوائری آفیسر نے صدر اپنے سینئر کے کہنے پر انکوائری کی لیکن 1973 E&D رولز کو فالو نہیں کیا۔ جس جرم پر ہمیں چارج شیٹ دی گئی اور وہ ہم پر ثابت نہیں ہوئی تو Miscounduct کا چارج لگا کر نوکری ختم کردی گئی۔ انکوائری آفیسر نے اپنے سینئر کو خوش کرنے اور اپنی نوکری بڑھانے کی خاطر تمام رولز کو بائی پاس کرتے ہوئے E&D Rule کے قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے ملازمین کو چارج شیٹ و شوکاز نوٹس جاری کرکے نوکریاں ختم کردی۔ نادرا میں انکوائری کرنے کے لیے پہلے چارج شیٹ دی جاتی ہے اپنی صفائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن نادرا میں کوئی چارج شیٹ نہیں دی گئی بس شوکاز نوٹس دے کر نوکری سے برخواست کردیا گیا۔ ملازمین 2001ء سے نادرا میں کام کررہے ہیں جن کے پاس ڈگری موجود ہے ان کی فائل میں جعلی، فور جری کے کر نوکری سے برخاست کردیا گیا جبکہ نادرا HR نے اپنے من پسند لوگوں کی جن کی ڈگری واقعی جعلی تھی ان کی ڈگری جعلی ہونے کے لیٹر آتے ہی ان ملازموں کو اطلاع دے کر ان سے Resign کروا کے ان کے تمام واجبات ادا کرکے ان کو رخصت کیا۔ ادارے میں آج تک SOP مکمل نہیں ہے، مختلف ادوار میں چیئرمین صاحبان اپنی SOP’s لے کر آتے ہیں اگر SOP میں Lopholes ہے تو اس کی سزا نادرا ملازمین کو کیوں دی جاتی ہے۔ ہم نادرا ملازمین نے 2012ء میں نادرا ایمپلائز یونین کے پلیٹ فارم سے اپنی نوکری کو مستقل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اس وقت کے موجودہ چیئرمین علی ارشد حکیم نے ہم ملازمین گورنمنٹ کے پر اسکیل پر آگئے آج ہمیں ریگولر ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ 95 فیصد نادرا کے ریگولر ملازمین کو ٹارگٹ کرکے نوکریوں سے برطرف کیا گیا ہے۔ ہم نے حصول انصاف کے لیے ایک درخواست پھر 2018ء میں دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نوٹس لیتے ہوئے نادرا سے جواب طلب کیا تھا۔ جواب میں نادرا نے سپریم کورٹ میں جھوٹا جواب جمع کرایا۔ نادرا نے 338 ملازمین کی انکوائری کی ہے اور قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے نوکریوں سے برخاست کیا ہے اور ہر ایک کو چارج شیٹ دے کر مکمل انکوائری کی ہے۔ یہ بات سراسر جھوٹ اور یہ عدالت عظمیٰ کی توہین کی ہے۔ نادرا انتظامیہ اپنی نااہلی و کرپشن چھپانے کے لیے چھوٹے ملازمین (ڈیٹا انٹری آپریٹر سپروائزر یا وہ افسران جو ان کو پسند نہیں مختلف الزامات لگا کر نوکری سے برخاست کردیتے ہیں۔ ہمارے جن ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کیا ہے ان میں کسی نے ٹوکن جاری کیا ہے کسی نے فارم کو اسکین کیا ہے کسی نے فارم میں درخواست دھندں کے انگوٹھے لیے ہیں اور کسی نے فارم اسلام آباد بھیجا ہے جو کہ ہماری ڈیوٹی میں شامل ہیں جس بات کی ہمیں تنخواہ ملتی ہے اور جو نادرا SOP کے عین مطابق ہے اگر SOP غلط ہے تو SOP بنانے والے جو اسلام آباد میں ہیں ان کو سزا کیوں نہیں دی جو کہ آج تک نادرا SOP نہ مکمل ہے اور نادرا کے چھوٹے ملازمین کو نقصان ہوتا ہے۔ اب نادراکے آفس ون ونڈو کے تحت کام کررہے ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا پہلے ٹوکن جاری کرنے والے، تصویر لینے والا اور تھمپ لینے والا ڈیٹا انٹری کرنے والا فارم کو اٹیسٹ کروانے اسکین کرنے والا ملازم الگ الگ ہوتے تھے، ہر ملازم اپنا کائونٹر پر اپنا کام کرتا تھا۔ یہ تمام کام اس وقت کی SOP کے مطابق ہوتا تھا، SOP میں Loophole رہے تو جنہوں نے SOP جاری کی وہ لاکھوں پر تنخواہ مراعات لیتے ہیں وہ نادرا میں آج پہلے سے زیادہ تنخواہ مراعات لے رہے ہیں۔ فارم اسلام آباد جانے کے بعد نادرا کے جدید سسٹم سے گزار کے شناختی کارڈ جاری ہوتا ہے۔ جس میں AFIS سسٹم + Facial System اور جدید Verification کا سسٹم موجود ہے جس کے گزرنے کے بعد شناختی کارڈ اسلام آباد سے جاری ہوتا ہے، آج تک ان سسٹم میں کام کرنے والے ملازمین جو لاکھوں روپے تنخواہ مراعات لے رہے ہیں کسی انکوائری کا حصہ نہیں بننے۔ نادرا میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کو جب نوکری سے برطرف کیا جاتا ہے وہ پورے مہینے کام کرنے کے بعد ان کی تنخواہ روک کر ملازم کو برطرفی کا خط دے دیا جاتا ہے۔ ہم نے سابقہ چیئرمین سمیت وزیر خارجہ، وزیراعظم پاکستان کو بھی حصول انصاف کے لیے کئی دفعہ مشترکہ درخواست دی ہیں مگر افسوس درخواست سرد خانے کی نذر کردی جاتی ہے۔ جبکہ اعلیٰ افسران جب کسی بھی الزام پر نوکری سے برطرف ہوتے ہیں تو وہ ان کو لاکھوں روپے دے کر گھر بھیجا جاتا ہے۔ نادرا کے ایک آفیسر جنہوں نے کئی ملازمین کی نوکری کو ختم کیا اور بعد میں خود Terminate ہوئے تو نادرا نے ان کو بونس، تنخواہ، مراعات کے ساتھ ساتھ ان کے فنڈ میں 40 سے 60 لاکھ روپے دے کر گھر بھیجا جاتا ہے۔ بعد میں یہی افسر کورٹ جاتے ہیں، کورٹ سے ان کی پٹیشن خارج ہوتی ہے پھر سپریم کورٹ سے ان کی پٹیشن خارج ہوتی ہے۔ نوکری بحال نہیں ہوتی جس پر نادرا چیئرمین عثمان یوسف مبین ان کو دوبارہ لاکھوں روپے تنخواہ پر نوکری دیتے ہیں اور ابھی بھی وہ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر کام کررہے ہیں۔ نادرا کے وہ افسران جو اپنے پاور کا استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی کے بلاک شناختی کارڈ کو کلیئر کیا اور انکوائری میں ان کو سزا بھی ہوئی مگر سیاسی زور پر نادرا چیئرمین صاحب ان کو دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کرتے ہیں۔ مگر جب ڈیٹا انٹری آپریٹر اور وہ افسران جن کے پاس سفارش نہیں ہے ان کو چیئرمین اسلام آباد بلاتے ہیں ان کو Loloy Pop دے کر واپس کردیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سفارش نہیں ہے۔ سابقہ چیئرمین نادرا عثمان یوسف مبین جو ابھی چیف ٹیکنیکل آفیسر ہیں انہوں نے اپنے 5 سال میں نادرا کا آڈٹ نہیں ہونے دیا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے نادرا کے مختلف پروجیکٹ پر خرچ کیا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور وہ دوبارہ چیئرمین بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مثال کے ور پر کچھ عرصہ قبل سابقہ چیئرمین عثمان مبین کے دست راست اور فرنٹ مین ذوالفقار علی کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا اور بعد میں ان کے خلاف سرکاری ایجنسی کی تحقیقات شروع کیں لیکن عثمان مبین نے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ان کو بچالیا۔ چیئرمین عثمان یوسف مبین نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے تمام قواعد اور طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے قریبی لوگوں کو پروموشن دیے جو وزیرداخلہ شیخ رشید کی دوراندیشی کی وجہ سے معاملات کو اسی وقت روک دیا گیا۔ آج نادرا کو 21 سال ہوگئے مگر آج تک نادرا کا سروس اسٹریکچر نہیں ہے نہ ہی APT رولز ہیں۔ نادرا ملازمین بھرتی کرنے کا کوئی قانون نہیں۔ چیئرمین سے لے کر ڈائریکٹرز تک اپنی پسند اور رشتے داروں کو بھرتی کرتے ہیں۔ عثمان یوسف مبین نے سفارش پر تمام رولز کو بائے پاس کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر بھرتی کیے جو نادرا سے لاکھوں تنخواہ کے ساتھ ساتھ مراعات بھی لے رہے ہیں مگر کسی میں ہمت نہیں کہ پوچھے۔ ہم وزیراعظم عمران خان سے کہتے ہیں کہ نواز شریف نے جو پاکستانیوں کا پیسہ بے دردی سے خرچ کیا وہ ان کے باپ کا پیسہ تھا لیکن سابقہ چیئرمین عثمان یوسف مبین سے نہیں پوچھتے۔ صرف نادرا کا 2015ء سے 2021ء عثمان مبین کے دور میں پروموشن اور پے رول کا ڈیٹا لے لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ عثمان مبین نے کتنی بے دردی سے نادرا کا پیسہ اپنے ہواریوں کے ساتھ مل کر استعمال کیا۔ اس موقع پر مزدور رہنما انیس زیدی، بختیار خان، رانا فیصل، سراج الحق، شوکت شیروز اور دیگر بھی موجود تھے۔ ان رہنمائوں نے صدر پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیرداخلہ شیخ رشید، چیئرمین نادرا بریگیڈیئر (ر) خالد لطیف سے بھی گزارش کی ہے کہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے ہمیں صفائی کا موقع دیں اور غیر جانبداری طریقے سے تحقیقات کراکر انصاف دلانے میں ہماری مدد کریں۔