سندھ میں را کی سرگرمیوں میں اضافے کے امکانات

817

 

۔1971ء کی جنگ میں بین الاقوامی سازش کے تحت پاکستان کے دو ٹکڑے کرائے گئے تھے۔ 16 دسمبر 1971ء کا بدترین دن اور سانحہ تھا جب پاکستانی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور پاکستانی قوم سکتے میں تھی۔ دوسری طرف بنگالی میجر جو پاکستان آرمی کے ساتھ عمرکوٹ سے آگے کھوکھرا پار بھارتی سرحد کے ساتھ تعینات تھا اس نے پاکستان سے غداری کرتے ہوئے پاکستانی سرحد پار کرکے بھارتی سرحد باڑ میر (راجستھان بھارت کا سرحدی شہر ہے) کے آفیسر کمانڈنگ پاکستانی سرحد کا فوجی نقشہ مع خفیہ دستاویز دے دیا اور ضلع تھر پارکر و عمر کوٹ کے قدیم ہندو بھی پاکستان سے فرار ہو کر انڈیا پہنچے تھے اور بھارتی فوج پاکستان کے سرحدی علاقے ننگرپارکر، چھاچھرو اور کھوکھراپار کی سرحد کوپار کرکے پاکستان کے سرحدی علاقوں ضلع تھرپارکر اور ضلع عمرکوٹ پر دو سال تک قابض رہی۔ تقریباً 64ہزار پاکستانی ہندو مٹھی، ننگرپارکر، چھاچھرو اور عمرکوٹ سے بھاگ کر باڑ میر اور جیسلمیر میں جا کر ٹھیرے تھے اور بھارت نے باقاعدہ کیمپوں میں ٹھیرا کر پوری دُنیا میں اس کی خوب پبلسٹی کی تھی اور ان بھگوڑے پاکستانی ہندوئوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را نے باقاعدہ ٹریننگ دے کر پاکستان میں بھیجا تھا اور 75 کے قریب پاکستانی فوج کے بہادر سپوت شہید ہوئے تھے۔ ان کی مشہور یادگار بنام شہدا یادگار مٹھی سے 25 کلومیٹر پر موجود ہے ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے شملہ معاہدے کے بعد سندھ میں اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ 1974ء باقاعدہ سَن گائوں ضلع دادو میں جئے سندھ کے بانی مرحوم جی ایم سیّد سے ملاقات کی تھی اور سندھ یونیورسٹی میں طلبہ کے کانووکیشن میں باقاعدہ سندھو دیش کا پرچم لہرایا اور لاڑکانہ میں مشہور ہندو لیڈر آنجہانی سوبھو چندگیانی ان کے اہم کردار تھے اور سندھی طلبہ کو پاکستان کے خلاف نہ صرف زہریلا لٹریچر فراہم کرتے تھے بلکہ ہندوستان کے 52 صوبے بتاتے تھے اور خدانخواستہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو انگریزوں کا ایجنٹ بتاتے تھے اور ان سندھی لڑکوں کی برین واشنگ کرکے خیرپور اور گھوٹکی کے راستے جیسلمیر بھیجا جاتا جو گھوٹکی سے 65 کلومیٹر ہے۔ سکھر میں دریائے سندھ میں سادھوبیلا میں ہندو عورتوں کی مشکوک فلمیں بنا کر انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ راقم الحروف جب سرکاری دورے پر مہران ہوٹل سکھر میں ٹھیرا ہوا تھا اور سیلز ٹیکس کی آڈٹ کے دوران سکھر سے گھوٹکی تک کاٹن جننگ فیکٹریوں اور دوسرے چھوٹے یونٹوں کی آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ گھوٹکی میں ہندو فیملی کے ایک سرکردہ رہنما نے تو باقاعدہ سرکاری اسکول میں تقریب کے دوران ہندوستان کا قومی ترانہ بندے ماترم پڑھوایا تھا اور بھارت کا ترنگا پرچم لہریا تھا اور پاکستان کے پرچم کو نذر آتش کیا تھا۔ حساس اداروں نے اس کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بروقت گھوٹکی کے سرحدی علاقے سے انڈیا فرار ہو گیا تھا۔ بدقسمتی سے سندھ کے سرحدی علاقوں ضلع تھرپارکر، عمرکوٹ، گھوٹکی اور خیرپور کا سرحدی علاقہ چنڈ کو میں تعینات تمام حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہیں 5واں کالم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا وہ تمام تر تفصیلات بھاری معاوضہ لے کر ان تمام مشکوک دہشت گردوں کو فراہم کرتے ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں نے سکھر ریلوے پُل کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی وہ ناکام ہوئی تھی۔ سکھر کھجور مارکیٹ پر ہندو کمیونٹی کے لوگ چھائے ہوئے ہیں اور گھوٹکی کے راستے را کے دہشت گردوں کی آمد پر انہیں سکھر میں نادرا کے مشکوک افراد کو بھاری معاوضہ رشوت کے طور پر دے کر ان کے قومی شناختی کارڈ بنوائے جاتے ہیں اور وہ اندرون سندھ میں ریلوے لائنوں اور حساس تنصیبات کو نشانہ بناتے تھے جس کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے۔ دراصل سندھ میں حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کالی بھیڑیں حقیر معاوضہ لے کر ان دہشت گردوں کی باقاعدہ ہر طرح کی مدد کرتے ہیں اور یہ کالی بھیڑیں جن کا خود ریکارڈ تھانوں اور حساس اداروں کے پاس موجود تھا ان سب کو ضائع کرا کے سابق آئی جی سندھ پولیس نے سابق صدر آصف علی زرداری کے حکم پر بھرتی کیا تھا اور سندھ میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔
اس وقت نیب کراچی کی عدالت میں سابق آئی جی پولیس (سندھ) غلام حیدر جمالی اور ان کے رفقاء پر مقدمہ چل رہا ہے وہ ضمانت پر ہیں جبکہ ہزاروں جعلی پولیس اہلکاروں کے کیس میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ بھی شریک ملزم ہیں اور ان کے خلاف ڈائرکٹر جنرل نیب (سندھ) کو حکم صادر فرمایا جائے کہ وہ مندرجہ بالا ملزموں کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سخت ترین سزا دلوائیں۔
راقم الحروف کے سابقہ شہر میرپورخاص (سندھ) سے مسلسل اہم اطلاعات معتبر ذریعوں سے مِل رہی ہیں کہ صوبائی وزیر خوراک و اقلیتی امور حکومت سندھ کافی عرصہ سے کرپشن اور پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ وہ اس اہم عہدے پر 19 اگست 2018ء سے فائز ہیں۔ ہری رام کشوری لال 29 مئی 1952ء کو میرپورخاص (سندھ) میں ایک خوشحال ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے آنجہانی والد کی نہ صرف کاٹن جننگ فیکٹری تھی بلکہ زمیندار تھے۔ انہوں نے 1971ء میں شاہ ولی اللہ پبلک اسکول میرپور خاص سے پاس کیا جبکہ راقم الحروف نے بھی مذکورہ بالا اسکول سے میٹرک 1972ء میں پاس کیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اس عہدے پر مارچ 2012ء سے لے کر مارچ 2018ء تک فائرز رہے اور اس دوران ان کی مشکوک سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ انہوں نے اپنے مخصوص آدمی محمد زاہد خان غوری ولد مرحوم مصطفی خان غوری جو محلہ پیرآباد کا سابق رہائشی ہے اور سابق ٹیلی فون آپریٹر / سپروائزر جو پی ٹی سی ایل ایکسچینج میرپورخاص میں تعینات تھا وہ تمام حساس اداروں کی گفتگو مانیٹر کرکے دیتا تھا اور یہ تمام اطلاعات سابق بھارتی جاسوس مرحوم محمد ابراہیم آریسر ولد مرحوم محمد عالم سابق آکٹرائے انسپکٹر بلدیہ ضلع باڑمیر راجستھان سے تعلق رکھتا تھا، بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ٹریننگ لے کر پاکستان جاسوسی کے مشن پر آیا تھا۔ 1968ء میں سابق آفیسر کمانڈنگ آرمی انٹیلی جینس 677FIU حیدرآباد میجر محمد بشیر نے اپنے سابقہ ماتحت صوبیدار عزیز کے ہمراہ تعلقہ دھورو نارو ضلع عمرکوٹ (سندھ) سے گرفتار کرکے اور سخت تفتیش کرنے کے بعد 1968ء میں پاکستان آرمی حیدرآباد کینٹ میں فوجی عدالت کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اختر نے 4 سال کی سنائی تھی۔ اس کا نام آج بھی عمرکوٹ پولیس اسٹیشن (سندھ) میں غیرقانونی طور پر داخلے کے احرام میں درج ہے بعد ازاں ہری رام کشوری لعل اور پاکستان پیپلز پارٹی میرپورخاص کے ایم این اے پیر آفتاب شاہ جیلانی نے پاکستان پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ عمرکوٹ کا صدر بنا دیا تھا وہ نہ صرف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا بلکہ انتہائی چالاک اور مکار شخص تھا اور اپنے مخصوص کاموں کے لیے ایک بدنام زمانہ سابقہ پولیس کانسٹیبل میرپورخاص (سندھ) اور حساس اداروں کے سابقہ انٹرولمینٹ انفارمر مرحوم صحبت خان ولد مرحوم عظمت خان کو بھاری معاوضہ دے کر اہم فوجی معلومات بھارتی خفیہ ایجنسی را ڈسٹرکٹ باڑمیر راجستھان کو بھیجتا تھا اکثر وہ پاکستان آرمی کینٹ حیدرآباد مرحوم صحبت خان کے ساتھ جاتا رہتا تھا۔
صوبائی وزیر حکومت سندھ ہری رام کشوری لعل نے بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ارکان پارلیمنٹ کو حج کوٹا ملا تھا انہوں نے اپنے حج کوٹے پر محمد زاہد خان غوری ولد مرحوم غلام مصطفی خان غوری کو سعودی عرب بھیج دیا تھا یہ میرپورخاص (سندھ) کا مشہور واقعہ ہے حج سے واپسی ہر اہلیان میرپورخاص بشمول علما کرام کے لعنت ملامت کرنے پر دوبارہ ازسرنو حج کرنے کے لیے سعودی عرب گیا تھا ہری رام کشوری لعل نے اپنے مخصوص کاموں کے لیے ہرجی مل اسسٹنٹ سیکرٹری ڈسٹرکٹ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی میرپورخاص (سندھ) کو مقرر کیا ہوا ہے۔
میری محترم وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ ہری رام کشوری لعل صوبائی وزیر خوراک و اقلیتی امور کی کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اور مشکوک سرگرمیوں کی تحقیقات حساس اداروں سے کرا کر سخت سزا دلوائیں۔