جو دنیا چھوڑ جائے وہ دعائوں کا محتاج ہوتا ہے

298

کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ملکی صحافت کے سیون اسٹار ایک ایک کرکے دنیا چھوڑ جائیں گے، ابھی کل کی بات ہے کہ انور قدوائی، مجید نظامی، عبد الکریم عابد ان کے بعد ادریس بختیار، سید اطہر ہاشمی، سعود ساحر، روئف طاہر، مسعود ملک، سہیل عبدالناصر یہ سب فانی دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، یہ سب کوئی معمولی نام نہیں تھے، یہ سب اپنے شعبہ کے باقاعدہ شاہ کار تھے، یہ اپنی نذر پوری کرچکے اور کچھ نذر پوری کرنے کے منتظر ہیں، انہی میں سے دو نام، معتبر نام، اپنی خوبیوں اور اپنی ذاتی کی تاریخ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، بزرگ صحافی ابن ِ عبدالرحمن، جو آئی اے رحمن کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے، نوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے وہ ستر برس سے صحافت کے ساتھ وابستہ تھے، طویل صحافتی زندگی میں سیاست، اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر بہت خوب لکھتے رہے تحریر دانش، شگفتگی اور توانائی سے بھرپور ہوتی تھی فیض احمد فیض کی ایڈیٹر شپ کے دور میں ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں بطور رپورٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا ازاں وہ اسی اخبار میں چیف ایڈیٹر کے منصب تک پہنچے ٹریڈ یونین اور دوسری سرگرمیوں کی وجہ سے اُنہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور جیل یاترا بھی کرنی پڑی، لیکن وہ اپنے نظریات پر جمے رہے۔
خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد بھی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے مختلف جرائد اور روزناموں سے ہوتے ہوئے روزنامہ خبریں کا آغاز کیا اور ایک وسیع صحافتی امپائر اپنے وارثوں کے حوالے کرگئے ہیں، آئی اے رحمن کو سائنس دان ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے ماسٹرز ڈگری فزکس میں حاصل کی مگر شاید انہیں علم تھا کہ جنرل مشرف کا دور آئے گا اور ملک میں ایک روز ممتاز سائنس دان خوار کر دیے جائیں گے ہوسکتا ہے کہ اسی کے سبب وہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہوئے اور فزکس چھوڑ کر اپنی کیمسٹری صحافت سے ملا لی انسانی حقوق کے لیے انہوں نے بہت کام کیا کہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے طور پر پہچانے جانے لگے، انہیں کئی ایوارڈوں سے بھی نوازا گیا، انسانی حقوق تو روس نے کابل میں تباہ کیے، امریکا نے تورابورا میں تباہی مچائی اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ انہیں مظلوم کشمیریوں اور افغانوں کے ہاتھوں بھی کوئی ایوارڈ ملتا، ضیا شاہد بھی ملکی صحافت کا بڑا نام ہے، بڑی صلاحتیوں کے مالک تھے وہ چاہتے تو ملکی صحافت میں انقلاب لاسکتے تھے مگر وہ کارکن ہوتے ہوئے بھی کارکن کے مسائل سے بے خبر رہے اپنے صحافتی مدار سے نکل کر سیاست کی نذر ہوتے رہے تحریک انصاف اور اس سے پہلے مسلم لیگ(ن) میں اس قدر آگے بڑھے کہ مرکزی مجلس عاملہ تک جاپہنچے لیکن ایک وقت آیا کہ دونوں جماعتوں کو خیر باد کہہ دیا۔ صحافی صرف صحافی ہوتا ہے اور غیر جانبدار ہوتا ہے وہ کسی این جی او، کسی سیاسی جماعت، کسی سیاسی شخصیت کا اسیر نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ آئی اے رحمن اور ضیا شاہد کی مغفرت فرمائے اُن کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے…
اب آخر میں ایک وضاحت، بلکہ قارئین سے معذرت اور قبلہ یحییٰ بن زکریا کا شکریہ کہ گزشتہ کالم میں پیر اشرف کو پاکستان قومی اتحاد کا سیکرٹری جنرل لکھا گیا، انہوں توجہ دلائی کہ پاکستان قومی اتحاد کے پہلے سیکرٹری جنرل پیر اشرف نہیں بلکہ رفیق باجوہ تھے، یحییٰ بن زکریا کی توجہ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ، بس یہ غلطی سہواً ہوئی، اسے کمپوزنگ کی غلطی نہیں کہا جاسکتا۔