ہمارا مقابلہ پیپلز پارٹی سے نہیں، عمران خان اور موجودہ نظام سے ہے، احسن اقبال

345

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہمارا مقابلہ پیپلز پارٹی سے نہیں ، عمران خان اور موجودہ نظام سے ہے۔

تفصیلات کے مطابق احسن اقبال نے کہا ہےکہ ہمارا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی سے نہیں بلکہ عمران خان اور موجودہ نظام سے ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نے اب پی پی پی سے کوئی جملے بازی یا مکالمہ بازی نہیں کرنی،  نواز شریف اور شہباز شریف ایک سکے کے دو رُخ ہیں جبکہ مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف بھی ایک سکے دو رُخ ہیں۔

 انہوں نے کہاکہ اگر پی ڈی ایم ایک انتخابی اتحاد بن گئی تو وہ چاروں صوبوں میں بھونچال برپا کردے گی اور سندھ کے اندر بھی کامیاب ہو گی، پی پی پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر کے باقی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کردیا ہےکہ وہ پی ڈی ایم کو ایک انتخابی اتحاد بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور کریں جس نے پی ڈی ایم کو چھوڑا ہے اس نے خود کو ڈینٹ ڈالا ہے اس نے پی ڈی ایم کو ڈینٹ نہیں ڈالا۔

احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب نواز شریف کو باہر بھیجا تو یہ سمجھ کر اور اپنی طرف سے یہ تسلی کر کے بھیجا کہ یہ چند دنوں کے مہمان ہیں ان کا کوئی حادثہ ہمارے گلے نہ پڑے انہیں باہر بھیج دو، حکومت اپنی طرف سے نواز شریف کی زندگی ختم کر بیٹھی تھی اور وہ صرف چاہتےکہ یہ حادثہ پاکستان میں نہ ہو بلکہ باہر ہو جائے۔

احسن اقبال نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم میں لڑائی نہیں ہوئی اور ہم نے ابھی بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے کہا ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں کیونکہ پی ڈی ایم کے ساتھ لوگوں کی توقعات ہیں ، پی ڈی ایم ایک بہت بڑے مشن کی تحریک ہے اور اگر پی پی پی اور اے این پی اس چارٹر کا جس کا وہ دم بھرتے ہیں اگر سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں مولانافضل الرحمان کی کی جانب سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی پیشکش کی ہے اس پر انہیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے لیکن اگر ان کی کوئی اور سوچ ہے تو پھر ہم ان کے ساتھ زبردستی تو نہیں کرسکتے۔

 انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم میں بچ جانے والی آٹھ جماعتیں اگر انتخابی اتحاد بن گئیں تو پھر یہ بہت بڑا موقع بن جائے گا۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نہیں مانتے اس لئے ہم نے سینیٹ میں آزاد اپوزیشن گروپ کے قیام کی درخواست دی ہے اور اس گروپ میں 27 سینیٹرز ہوں گے اور اس کی سربراہی سینیٹر چوہدری اعظم نذیر تارڑ کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ میاں محمد نواز شریف کی صحت کو جو خطرات اور خدشات لاحق ہوئے تھے وہ بھی قابل انکوائری ہیں، حراست میں ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے جس کی بناء پر انہیں باہر بھیجا گیا، اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کیسے ایکدم ان کے پلیٹ لیٹس کم ہوئے اور سروسز ہسپتال میں ڈاکٹرز کا جو پینل نواز شریف کا علاج کررہا تھا نے ایسا کیا کیا۔

انہوں نے کہا جب ہم نواز شریف کو دیکھ کر گئے تو دل میں یقین نہیں تھا کہ کل صبح ہم انہیں دوبارہ مل سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کاخاص کرم ہے اور ان کی والدہ کی اور لاکھوں چاہنے والوں کی دعائیں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت کے منہ سے نکالا  ہے، مارنے والوں سے یا کسی کی زندگی ختم کرنے کی تمنا کرنے والوں سے بچانے والا بڑا ہے ، نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے صحت دی اور وہ روبصحت ہیں اور ان کا علاج ہو رہا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نواز شریف قومی اثاثہ ہیں اور ہمیں ان کی حفاظت کرنی چاہئے اور ان کا وجود ہماری رہنمائی کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ جو کل تک سلیکٹڈ وزیر اعظم کے نعرے کو چارج کرتے تھے آج وہ کیوں اس مقام پر آگئے کہ آج ان کے اپنے بندے کو سلیکٹڈ اپوزیشن لیڈر قراردیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ بطور سیاسی جماعت یہ پی پی پی کا حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں،  آصف علی زرداری کا یہ کہنا تھا کہ میرا ڈومیسائل کمزور ہے ، میرے نذدیک سندھ کے عوام کی توہین ہے، سندھ کے عوام کا ڈومیسائل پنجاب کے عوام سے بھی زیادہ مضبوط ہے ، سندھ کے عوام کی جمہوریت کیلیے جدوجہد اور قربانیاں پنجاب کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے ، یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ پی پی پی کمپرومائز ہو چکی ہے تاہم جو بھی کمزوری کی بات کرے گا وہ آئندہ الیکشن میں اس کی  قیمت  ادا کرے گا۔