روس کا جوابی وار ، 10 امریکی سفارتکار ملک بدر

243

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک) روس نے امریکا کی جانب سے پابندیوں کے جواب میں 10امریکی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ماسکو حکومت نے 8 امریکی عہدے داروں پر پابندی اور امریکی این جی اوز کی ملک میں جاری سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے اپنے بیان میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اچھے رویے کا مظاہرہ کرے، ورنہ ایسے فیصلے لیے جائیں سے جس سے امریکا کے لیے مشکل دور کاآغاز ہوجائے گا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ کریملن نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکی سفیر جان سولیون بھی اپنے روسی ہم منصب کی طرح مشاورت کے لیے واپس چلے جائیں۔ انہوں نے کہا ہم نے امریکا کو اسی کے انداز میں جواب دیا ہے۔ حکومت امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کومحدو د کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی،جس میں سفارت کاروں کی نقل و حرکت کومحدو دکرنا اور امریکی شہری کے سوا کسی اور کو ملازمت نہ دینا شامل ہوگا۔ روس بھی امریکا کے کاروباری مفادات کو ہدف بناسکتا ہے،تاہم فوری طور پر ایسا نہیں کیا جائے گا اور اقدامات کو مستقبل کے لیے بچا کر رکھا جائے گا۔ سرگئی لاروف نے کہا کہ روس اور امریکاکے درمیان کسی سربراہ ملاقات کی تجویز پر روس کارویہ مثبت ہے اور وہ اس پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لے گا۔ یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے جمعرات کے روز امریکاکے 2020 ء کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کرنے اور وفاقی اداروں پر سائبر حملوں کو بنیاد بناکر روس پر پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ امریکانے روس کے 10سفارت کاروں کو نکلنے کا حکم دیا، جب کہ کئی کمپنیوں اور افراد پر پابندیاں عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ روس کے قرضہ لینے پر بھی پابندیاں عائد کی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکاکے پاس روسی معیشت کو کمزور کرنے کی طاقت موجود ہے۔ روس دنیا بھر میں امریکی مفادات کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچا سکتا ہے،تاہم جوابی اقدام امریکی پابندیوں کی سطح کو نہیں پہنچ سکتا۔ متحدہ سوویت یونین کے مقابلے میں آج کے روس کے پاس اس درجے کی معاشی طاقت اور عالمی اثر و رسوخ نہیں ہے، لیکن روس کے جوہری ہتھیار وں نے اسے اب بھی بڑی طاقت بنائے رکھا ہے۔ روس نے کئی بار سپرسانک میزائلوں کے تجربات کیے اور دنیا کے کونے کونے کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کرچکا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں ترکی نے روس سے جدید فضائی دفاعی نظام ایس 400 خریدنے کا معاہدہ کیا تھا،جس کے بعد انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان بھی کشیدہ ہوگئے تھے۔