پاکستانی اشرافیہ کی مراعات

464

یو این ڈی پی، جو اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے اس نے پاکستان نیشنل ہیومن رپورٹ (NHDR) حال ہی میں جاری کی ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر ملک کے مختلف طبقوں میں آمدنی کے مقابلے میں عدم مساوات سو سے زیادہ ہو تو ترقی اور بہتری کے زیادہ تر منصوبے ناکام ہوجاتے ہیں اور ملک کی زیادہ تر آبادی غربت، بدحالی اور تنگدستی میں زندگی گزارتی ہے اور بااثر اور طاقتور طبقے، جن کا آبادی میں تناسب بہت کم ہوتا ہے لیکن اپنی طاقت پر اثر ورسوخ کی وجہ سے غریبوں کا حصہ بھی کھا جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ وہ اشرافیہ ہے جس میں کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں اور پاکستانی معیشت کے 26 کھرب 60 ارب روپے مختلف مراعات، الائونسز، سبسڈیز اور رعایتوں کی شکل میں کھا جاتے ہیں۔ ان مراعات میں سب سے زیادہ حصہ کارپوریٹ سیکٹر یا کاروباری طبقہ حاصل کرتا ہے جس نے اس رپورٹ کے مطابق سات کھرب 18 ارب روپے کی مراعات حاصل کی ہیں۔ اس میں وہ کاروباری لوگ شامل ہیں جو حکومت کو پٹی پڑھا کر سبسڈی حاصل کرکے اپنا مال باہر برآمد کردیتے ہیں اور سبسڈی کا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف جب ملک میں ان کے مال کی قلت ہوجاتی ہے تو مہنگے داموں فروخت کرکے دوہرا منافع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں آج کل وزیراعظم عمران خان دہائی دیتے نظر آرہے ہیں کہ شوگر ملز مالکان نے عوام کے 140 ارب روپے ہتھیا لیے ہیں۔ میں کیا کرتا انہوں نے کارٹیل بنا کر عوام کو لوٹا۔ سال 2019ء اور 2020ء میں آنے والے چینی کا بحران، آٹے کا بحران اور پٹرول کا بحران اسی کارپوریٹ سیکٹر کے کارنامے ہیں۔
دوسرے اور تیسرے پر آنے والا ایک فی صد امیر طبقہ ہے جس میں جاگیردار، زمیندار اور سردار شامل ہیں جو بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہیں جو بائیس کروڑ کی آبادی میں 1.1 فی صد ہیں لیکن ملک کی 22 فی صد قابل کاشت زمین کے مالک ہیں اور ملک کی مجموعی آمدنی کا 9 فی صد حاصل کرتے ہیں اور انہیں مختلف مراعات کی شکل میں 2 کھرب 60 ارب روپے مل رہے ہیں۔ یہ دونوں طبقے سینیٹ اور پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہیں اور اپنے مفادات اور مراعات کو سامنے رکھ کر قانون پاس کرواتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے ملک کے خزانے اور غریب عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
علم معاشیات میں آمدنی میں عدم مساوات کو اس طرح بھی دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی قومی آمدنی (GDP) میں 20 فی صد امیر لوگوں کا کتنا حصہ ہے اور 20 فی صد غریب ترین لوگوں کا کتنا حصہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 20 فی صد امیر لوگوں کے پاس ملک کی پچاس فی صد آمدنی ہے جب کہ 20 فی صد غریب ترین لوگوں کے پاس مجموعی آمدنی کا 7 فی صد ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں امیر و غریب کی آمدنی میں کتنا فرق ہے۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرتی اور معاشی دائروں میں جو عالمی اشاریے ہیں اُن میں پاکستان کا نمبر بہت نیچے نظر آتا ہے مثلاً انسانی ترقی کا اشاریہ (HDI) جو پورے معاشرے کا تعلیم، صحت اور آمدنی کا آئینہ ہے سال 2020ء میں پاکستان 189 ممالک میں 154 نمبر پر ہے اور جنوبی ایشیا میں سوائے افغانستان کے تمام ممالک آگے ہیں۔ اسی طرح ملک کی مجموعی شرح خواندگی 60 فی صد ہے۔ تعلیم میں کمی کے باعث ملک کے نوجوانوں میں مزید ہنر اور ٹیکنالوجی کو سیکھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد علم، ہنر اور ٹیکنالوجی کے جدید تقاضے پورا کرسکنے کی وجہ سے اپنی معاشی حالت بہتر نہیں بناسکتی۔
تعلیم کی بہت بدتر صورت حال کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں کبھی میڈیم آف ایجوکیشن کا مسئلہ آجاتا ہے تو کبھی یکساں نصاب کا معاملہ اٹھادیا جاتا ہے سب سے اہم معاملہ جو تعلیمی بجٹ کا ہے اس پر بہت کم توجہ ہے اور جس بجٹ کا اعلان ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ تنخواہوں اور کرپشن میں لگ جاتا ہے۔ سندھ کے سیکرٹری تعلیم تو سندھ ہائی کورٹ میں یہ اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ ایک ہزار اسکول ضروری سازو سامان کی عدم فراہمی کے باعث بند کردیے ہیں۔ اس صورت حال میں ہمارا معاشرہ کس طرح ترقی کرے گا اور کس طرح عوام کی حالت بہتر ہوگی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔