چوتھا سبق: دعا جنت کی کنجی

310

مرتب: عتیق الرحمن
مطالعہ قرآن: ’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔ (البقرۃ: 681)
’’میرے متعلق سوال‘‘ سے مراد ضروری نہیں کہ خدا کی ذات و صفات ہی سے متعلق سوال ہو بلکہ یہ سوال اس کی ذات و صفات، اس کی پسند و ناپسند اور اس کے احکام و شرائع سب ہی پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ ’’پس میں قریب ہوں‘‘ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ خدا سے قرب و بْعد کا انحصار بندے کے اپنے دل کی حالت پر ہے۔ اگر بندہ خدا سے غافل اور بے پروا رہے تو اس سے زیادہ دور کوئی چیز بھی نہیں لیکن اگر وہ خدا کی طرف متوجہ رہے، اس کی یاد سے اپنے دل کو معمور رکھے، اس کی نعمتوں پر اس کا شکر گزار رہے اور اس کی آزمائشوں میں صبر واستقامت کی طلب کے لیے اسی کے آگے روئے اور گڑگڑائے تو خدا سے زیادہ قریب بندے سے کوئی چیزبھی نہیں۔ وہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ’’پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘ بھی ایک حقیقت کا بیان ہے۔ بندہ جب اپنے ربّ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کا جواب دیتا ہے، جواب دینے سے مراد قبولیت کا جواب ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ بندہ اپنے ربّ کو پکارے اور وہ اس کی مدد، فریاد رسی اور دادرسی کو نہ پہنچے۔ شرط صرف یہ ہے کہ بندہ اخلاص کے ساتھ پکارے اور اسی چیز کے لیے پکارے جس کے لیے پکارنا اس کے لیے زیبا ہے۔ اگر بندہ اپنے ربّ سے وہ چیز مانگتا ہے جو مانگنے کی ہے اور اس طرح مانگتا ہے جس طرح مانگنا چاہیے تو وہ چیز اس کو ضرور عطا ہوتی ہے۔ اگر فوراً عطا نہیں ہوتی تو اس کے مستقبل کے لیے یا اس کی آخرت کے لیے خدا کے ہاں محفوظ ہوجاتی ہے اور اگر اس شکل میں نہیں ملتی جس شکل میں اس نے مانگی ہے تو اس سے بہتر شکل میں وہ اس کو مل جاتی ہے یا اس کے لیے محفوظ کردی جاتی ہے۔ (تدبر القرآن)
مطالعہ حدیث: سیدنا ابو ہریرۃؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ جو شخص اللہ سے سوال نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ (ترمذی) سیدنا ابو ہریرۃؓ کی روایت میں ارشاد نبوی ہے کہ روئے زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی مطلوبہ چیز اسے عطا فرما دیتے ہیں یا اتنا ہی شر (برائی) سے دور ہٹا دیتے ہیں، شرط یہ کہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ اس شخص نے کہا: ’’تب تو ہم بہت زیادہ دعائیںکریں‘‘۔ تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بڑھ کر قبول کرنے والا ہے۔ (ترمذی) سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ؐ کے پیچھے سوار تھا آپؐ نے فرمایا: تو اللہ کے احکام کا خیال رکھ، اللہ تیرا خیال رکھے گا اور تو اسے اپنے سامنے پائے گا تو جب مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو بھی صرف اللہ سے مدد طلب کر۔ (ترمذی)
سیرت صحابہ: سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہؐ کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہؐ کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپؐ کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ابوہریرۃؓ کی ماں کو ہدایت دے دے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اے اللہ! ابوہریرۃ کی ماں کو ہدایت دے۔ میں رسول اللہ ؐ کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی اور بولی کہ ذرا ٹھیر۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی، غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتا پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرۃ (رضی اللہ عنہ)! (میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔
سیدنا ابوہریرۃؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ؐ کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا قبول کی اور ابوہریرۃ (رضی اللہ عنہ) کی ماں کو ہدایت سے نواز دیا تو آپ ؐ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور بہتر بات کہی میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! اللہ عزوجل سے دعا کیجیے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرۃ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے مجھے سنا ہو یا دیکھا ہو مگر اس نے مجھ سے محبت نہ رکھی ہو۔ (صحیح مسلم)
دعا فقط دوچار جملے یاد کرکے نماز کے بعد صرف ان جملوںکو بے سوچے سمجھے زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں، بلکہ دعا میں آنکھیں بھی مانگنے والے کی جانب لگی ہونی چاہییں، دل بھی ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو، شکل و صورت سے بھی عاجزی نظر آئے اور اپنی درخواست کی منظوری کے لیے پوری امید کے ساتھ دعا کرے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، بلکہ پورے عزم اور رغبت کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔ یقینا اللہ تعالیٰ سے جتنی رغبت سے مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے۔ (مسلم)