رمضان ،ماہِ سخاوت

369

حسن البنا شہید
رمضان خرچ کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر آپ روزے کی اصل روح سے سرشار ہوجائیں اور روزے آپ پر مثبت اثرات ڈالیں تو آپ محسوس کریں گے کہ بہت سے لوگ بھوکے ہیں، ان کے حلق پیاسے ہیں، ان کی آنتیں قل ھواللہ پڑھ رہی ہیں، جب کہ آپ میں اتنی استطاعت ہے کہ آپ ان کی بھوک کا ازالہ کر سکتے ہیں، ان کے پیاسے حلق تر کر سکتے ہیں، ان کی بھوک پیاس مٹانے کی سکت آپ میں ہے۔ اب روزہ آپ کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ آپ ان بھوکے پیاسے انسانوں کے لیے مال ومتاع خرچ کریں۔ روزے کی برکات و سعادات کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ آپ خوشی ومسرت بلکہ فخر سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے۔
ماہ رمضان جود وسخا اور بذل وعطا اور داد ودہش کا مہینہ ہے۔ آپ جب اس کے روزوں کے تجربات سے گزریں گے تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ آپ کے دل میں ایک نازک جذبہ جاگزیں ہوچکا ہے۔ ایک دقیق ورقیق احساس نے آپ کی ذات کا احاطہ کر لیا ہے۔ ایک نرم ونازک، رقت آمیز شعور مگر انتہائی طاقتور سوچ نے آپ کے دل ودماغ اور حواس پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ جذبہ، یہ احساس، یہ شعور یہ سو چ کیا ہے؟ لوگ اسے نرم دلی، رحمت اور شفقت وہمدردی کا نام دیتے ہیں۔ اسے آپ خواہ کوئی سا بھی نام دیں، رحمت و شفقت کہیں یا محبت والفت، مگر آپ یہ ضرور محسوس کریں گے کہ آپ کی ذات میں کسی ایسے جذبے نے جگہ بنا لی ہے جو آپ کو مجبور کرتا ہے کہ آپ پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کریں۔ آپ محروم لوگوں کو عطا کریں۔ آپ اپنے عطیات سے غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے آنسو پونچھیں۔
معلوم ہوا کہ رمضان بذل وعطا کا مہینہ ہے۔ آسان لفظوں میں دینے دلانے کا مہینہ ہے، خرچ کرنے کا مہینہ ہے۔ روزوں کی عملی تربیت سے اگر آپ کی ذات میں یہ جذبہ پیدا ہو، یہ خیال ابھرے اور یہ سوچ پیدا ہو کہ یہ مال ومتاعِ دنیا سب بتانِ وہم وگمان ہیں۔ انسانوں کو آزمایش پر آمادہ کرنے والی فانی شے ہے۔ لوگ جسے مال ومنال کہتے ہیں، یہ دراصل وبال ہے۔ اسی مال کی حرص نے انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ میں یہ جذبہ جنم لے گا کہ جس مال کا آپ کو جانشین بنایا گیا ہے، اسے آپ نے بھوکی پیاسی انسانیت کی خاطر خرچ کرنا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ اس مال میں سے آپ کے لیے صرف وہی ہے جسے آپ نے کھا لینا ہے اور یوں اسے اپنے ذاتی تصرف میں لے آنا ہے، یا اس مال میں سے لباس تیار کروا کر اسے پہن لینا ہے اور پھر اسے پرانا اور بوسیدہ کر دینا ہے، یا صدقہ کرکے اپنے مال کو بقاے دوام دینا ہے۔
قارئین محترم، ذرا اس ارشاد الٰہی کا مطالعہ کیجیے۔ ترجمہ: ’’ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘۔ (الحدید: 7) آپ بلاشک و شبہہ اللہ کے راستے میں، نیکیوں اور بھلائیوں کے کاموں میں ہنستے مسکراتے، بطِیب خاطر اپنا مال ودولت خرچ کریں گے۔ آپ کو اس کار خیر تک کس نے پہنچایا، صحیح شرعی روزے نے…!
اس ساری تمہیدِ طولانی کے بعد، اب آپ میں یہ صلاحیت پیدا ہوچکی ہے کہ آپ درج ذیل حدیث نبویؐ کے بھید کو پاسکیں اور اس میں مضمر راز کی تہہ تک پہنچ سکیں۔
امام بخاریؒ نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کی ہے، فرمایا: ’’رسول اللہؐ سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپؐ رمضان میں بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تھے۔ جبرائیلؑ آپؐ سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے تھے، اور آپؐ سے مل کر قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ نبی اکرمؐ خیر وبھلائی کی سخاوت کرنے میں تیز آندھی سے بھی زیادہ تیز تھے‘‘۔ (بخاری)
کیا آپ نے غور کیا: رسولِ انورؐ کی ذات گرامی روحانی درجات میں کس قدر بلند وبالا تھی۔ پھر اس پر جبریلؑ سے ملاقات کی روحانیت۔ پھر تلاوت قرآن کی روحانیت۔ ماہِ رمضان کے روزوں کی روحانیت۔ ان تمام روحانیتوں نے یک جا ہو کر یہ کیا کہ مادیت کا غلبہ کمزور پڑ گیا اور فتنے کے اثرات غائب ہوگئے۔ چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام مال ومتاع دنیا کی سخاوت اس طرح کرتے تھے، جیسے تند وتیز ہوا ہو کہ وہ ہر چیز پر سے گزرتی ہے، ہر شے کو سرفراز کرتی آپ نے دیکھا کہ خالص عبادت، عبادت گزاروں کے نفوس پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس مالی بحران کے دور میں، مسلمانوں کو اپنا مال خرچ کرنے کے لیے کہنا، ہمارے قارئین محترم کو کچھ عجیب سا لگے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ مجھ پر اعتراض کریں کہ جب لوگ معیشت کی تنگی میں مبتلا ہیں اور مالی بحران نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، تو ایسی حالت میں انھیں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دینا غیر موزوں ہے۔ اس کا فائدہ کیا؟
میں آپ سے کہوں گا: عزیز محترم! ذرا رُک جائیے: آپ بینکوں کی عمارات دیکھیے، عوام کی ان بینکوں میں آمد ورفت اور بھیڑ بھاڑ پر نظر ڈالیے۔ آپ بدکاری وعیاشی کے اڈوں کو دیکھیے، جوے خانوں پر نگاہ ڈالیے، آپ سمعان کی دکانوں کو ملاحظہ کیجیے۔ آپ مارکیٹوں اور بازاروں میں خریداروں کے ہجوم کو دیکھیے۔ آپ بڑی بڑی آرام دے گاڑیوں اور کاروں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ آپ بلند وبالا کوٹھیوں اور بنگلوں سے کیسے صرف نظر کر سکتے ہیں۔ آپ کے سامنے دنیا کی زندگی کی چمک دمک ہے، دنیا کا پھول خوب کھلا ہوا ہے۔ دنیوی امارت اور شان و شوکت کے مظاہر کے اثرات آپ کو ہمارے سرمایے پر اور ہمارے نوجوانوں پر نظر آئیں گے۔ آپ ذرا سی دیر کے لیے ہی، یہ سب کچھ دیکھیے اور پھر بتائیے کہ غربت کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں، نہ کوئی بحران ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم لوگ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے میں کنجوس وبخیل واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے نفوس میں بخل ہی بخل ہے۔ ہم لوگ اپنے اموال ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں، جو اللہ کو پسند نہیں۔ ہم اعلیٰ وبرتر اْمور کے طلب گار نہیں، ہم معمولی وحقیر اورگھٹیا قسم کے کاموں میں الجھتے ہیں۔
بہر حال یہ ماہ رمضان ہے… سخاوت کا مہینہ، راہ خدا میں اپنے مال ودولت کو خرچ کرنے کا مہینہ… ہمارے سامنے بہت سے منصوبے ہیں۔ یہ ہمیں خرچ کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ تو کیا ماہِ رمضان کے روحانی موسم میں، اس پاکیزہ فضا میں، اس کیف انگیز ماحول میں ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی تربیت و تجربہ کا موقع دیں گے؟
ارشاد خداوندی ہے، ترجمہ: ’’دیکھو، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑوگے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ جیسے نہ ہوں گے‘‘۔ (محمد: 38)
ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی