افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

301

رمضان کے روزوں کی قضا
اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیے مخصُوص نہیں کردیا ہے، بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اْن کے لیے دْوسرے دنوں میں اْس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اْس نے تم کو دی ہے، اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محروم نہ رہ جاؤ۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قراردیا گیا ہے، بلکہ اْنھیں مزید براں اْس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھہرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں اْس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صْورت اگر ہوسکتی ہے، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دْنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزْولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے، اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔(سورۃ البقرہ: حاشیہ نمبر187)
٭…٭…٭
ذکر
’ذکر‘ کے معاملے میں دو باتیں پیش نظر رہنی چاہییں۔ ایک یہ کہ ’ذکر‘ بہ تکلف نہ ہونا چاہیے بلکہ دلی رغبت اور شوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ذکر کا انتخاب اپنے دلی ذوق کی بنا پر کرنا چاہیے۔ ذکر وہ کیجیے جس سے خود اپنی رْوح کی مناسبت آپ کو محسوس ہو، اور اس وقت کیجیے جب پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ آپ کرسکیں۔
ان دو باتوں کو ذہن میں رکھ کر آپ مشکوٰۃ میں سے تین مقامات کو بغور پڑھیں۔ کتاب الصلوٰۃ میں سے باب الذکر بعد الصلوٰۃ اور باب صلوٰۃ اللیل، باب القصد فی العمل اور کتاب الدعوات پوری۔ ان حصوں میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ نبیؐ ذکر ودْعا کس طرح فرماتے تھے اور دوسروں کو آپؐ نے کیا کیا چیزیں اس سلسلے میں بتائی ہیں۔ ان میں سے جو جو چیزیں بھی آپ کے دل کو لگیں ان کا انتخاب کرلیجیے۔ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، مئی 1957)
٭…٭…٭
رمضان میں فیاضی
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپؐ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (بیہقی)
رسول اللہؐ کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضورؐ کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہؐ کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ رمضان میں ہر قیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔