تراویح میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا

سوال: کیا تراویح میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جاسکتا ہے؟
جواب: شوافع اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ تراویح میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ ماہِ رمضان میں اپنے غلام ذکوان کی اقتدا میں تراویح پڑھتی تھیں۔ وہ مصحف میں دیکھ کر قرأت کرتا تھا۔ (بخاری تعلیقاً، کتاب الاذان، باب امام العبد و المولی، مصنف ابن ابی شیبہ، السنن الکبریٰ للبیہقی)
امام زہری سے دریافت کیا گیا کہ کیا رمضان کی نوافل میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ہم سے بہتر لوگ (یعنی صحابہ کرام ) نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھتے تھے‘‘۔ (المدوّن الکبری، المغنی لابن قدام)
امام نووی نے فرمایا ہے: ’’مصحف دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوگی۔ اوراق پلٹنے سے بھی نہیں‘‘۔ (المجموع :27/4)
امام ابو حنیفہ اور امام ابن حزم کے نزدیک مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔
اس کی دلیل میں ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ نے نماز میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: 655) لیکن یہ روایت ضعیف ہے، اس کا ایک راوی نھش بن سعید کذّاب متروک ہے۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن پڑھنے کے لیے ہر رکعت میں مصحف اٹھانا، پھر رکوع کرتے وقت اسے رکھنا، دوسری رکعت میں پھر اسے اٹھانا اور رکھنا ’عملِ کثیر‘ ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
یہ دلیل بھی مضبوط نہیں ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نماز پڑھتے ہوئے اپنی نواسی سیدہ امامہ بنت ابی العاص (سیدہ زینب کی صاحبزادی) کو اٹھاکر اپنے کندھے پر بٹھالیتے تھے۔ جب سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے۔ کھڑے ہوتے تو پھر کندھے پر بٹھالیتے۔ (بخاری:516، مسلم:543) ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ جوتے پہن کر نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے دوران میں ہی آپ کو معلوم ہوا کہ ان میں گندگی لگی ہوئی ہے۔ آپ نے فوراً انہیں اتار دیا۔ (ابوداؤد :650)
دورانِ نماز کسی بچی کو اٹھانا، پھر اتارنا، اسی طرح جوتے اتارنا جتنا زیادہ عمل ہے، مصحف اٹھانا اور رکھنا اور ورق پلٹنا اس سے کم ہے۔ جب اْس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو اِس سے بھی فاسد نہیں ہونی چاہیے۔
امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں (صاحبین) امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک نماز تو ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ کراہت کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) کے عمل کے مشابہہ ہے۔
اس بات میں بھی وزن نہیں ہے۔ اس کا جواب خود حنفی فقیہ ابن نجیم نے ان الفاظ میں دیا ہے:
’’اہل کتاب سے مشابہت ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے۔ جیسے وہ کھاتے پیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھاتے پیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھانا پینا مکروہ ہے۔ ناجائز مشابہت وہ ہے جو کسی غلط کام میں کی جائے۔ اس بنا پر اگر تشبیہ مقصود نہ ہو تو صاحبین کے نزدیک مصحف سے قرأت مکروہ نہ ہوگی‘‘۔ (البحر الرائق: 11/2)
مصحف ہی کے حکم میں موبائل بھی ہے۔ اس میں دیکھ کر بھی قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔