تحریک لبیک پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں، مفتی منیب الرحمن

682

کراچی: مفتی اعظم پاکستان، مفتی منیب الرحمن نے کہاہے کہ تحریک لبیک یارسول اللہ کا نعرہ لگانے والوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں، ہم شہداء کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے، حکومت دانشمندی سے کام لے، سارے گرفتار شدگان کو غیر مشروط طور پر رہا کرے، موجودہ صورتِ حال کے ذمہ دار تحریک لبیک سے معاہدہ کرنے والے وفاقی وزراء ہیں، کیا انھیں معاہدہ کرتے وقت اس کے اثرات ونتائج کا اندازہ نہیں تھا ، کیا انھوں نے معاہدہ کرنے کے بعد تحریک لبیک کی قیادت کو کسی مناسب حل تک آنے کے لیے آمادہ کیا۔

 مفتی اعظم پاکستان نے کہا کہ معاہدے میں حکومت نے یہ ذمہ داری قبول کی کہ وہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں پیش کریں گے ، اگر حکومت میں باقاعدہ سرکاری قرارداد پیش کرنے کی ہمت نہیں تھی ، تو کیا ایک درمیانی راستہ یہ نہیں نکل سکتا تھا کہ وہ اپنے کسی رکنِ پارلیمنٹ کے ذریعے اس موضوع پر ایک پرائیویٹ قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کرادیتے، اس کے بعد یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہوتا ہے۔

خیالات کا اظہار مفتی اعظم نے کراچی پریس کلب میں علامہ پیرسید حسین الدین شاہ، مولانا بشیر فاروق قادری ، علامہ سید مظفرحسین شاہ، مفتی عابد مبارک المدنی، علامہ رضوان احمد نقشبندی، مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی، مولانا ریحان امجد نعمانی، صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، علامہ اشرف گورمانی، علامہ رفیع الرحمٰن نورانی، علامہ بلال سلیم قادری، شاہد غوری  اور حاجی محمد رفیق برکاتی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس  کے دوران  کیا۔

 مفتی منیب الرحمان کا کہناتھاکہ لبیک یارسول اللہ کا نعرہ لگانے والوں پر براہ ِراست نشانہ لگاکر گولیاں چلائی گئی ہیں، مختلف لوگوں نے بتایا ہےکہ کافی لوگ شہید ہوچکے ہیں اوربڑی تعداد میں لوگ شدیدزخمی ہیں۔

مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ دنیا کی مسلّمہ روایت ہےکہ اگر مظاہرین اور احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے ناگزیر طور پر گولی بھی چلانی پڑے، تو جسم کے بالائی حصے پر نہیں چلائی جاتی، نچلے حصے پر چلائی جاتی ہے تاکہ موت کا باعث نہ بنے، لیکن سوشل میڈیا پر جو تصویریں وائرل ہوئی ہیں، اْن سے معلوم ہوتا ہے کہ گولیاں مظاہرین کے جسم کے بالائی حصے پر چلائی گئی ہیں اور یہ قتلِ عمد کے مترادف ہے ، جس کے حکم پر گولیاں چلی ہیں اور جنھوں نے چلائی ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے۔

مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم شہداء کے خاندانوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اورجو پولیس کے افراد جاں بحق ہوئے، اْن کے لواحقین سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، یہ بھی غیر دانشمندانہ ہے، اس کے دیرپا منفی اثرات مرتّب ہوں گے، ماضی میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں متبادل ناموں کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہیں۔

مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آپ حکومت کی طاقت اور قانون کے جبر سے لوگوں کی فکر اور مذہبی نظریات کو بدل نہیں سکتے، معاملات کو کسی قابلِ قبول صورت پر لانے کے لیے حکمت ودانش کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہماری حکومت اور حکمران اس صلاحیت سے عاری ہیں، ان کے نزدیک حکومت صرف جبر وجور ، طاقت کو استعمال کرنے اور دوسروں کو اپنے مقابل حقیر جاننے کا نام ہے،ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔

مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ ہم ان مظالم اور حکومت کے اس طرزِ عمل کی شدید ترین مذمت کرتے ہیں،  اب بھی وقت ہے کہ حکومت دانشمندی سے کام لے، سارے گرفتار شدگان کو غیر مشروط طور پر رہا کرے، ورنہ ان سارے خاندانوں میں حکومت کے خلاف نفرت کا لاوا پکے گا۔

مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ تحریک کے سربراہ علامہ حافظ سعد حسین رضوی اور ان کی شوریٰ کے ذمے داران کو رہا کر کے ان سے بامعنی مذاکرات کیے جائیں تاکہ بتدریج صورتِ حال کو معمول پر لایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پر یہ بات واضح ہونی چاہیےکہ اس وقت پاکستان بھر میں اہلسنّت وجماعت کے دینی جذبے سے معموراور ناموسِ رسالت پر فریفتہ متحرک اور پرجوش نوجوان ذہنی ،فکری اور عملی طور پر تحریک لبیک سے وابستہ ہوچکے ہیں، اگر اس صورتِ حال کا حکمت وتدبیر سے مداوا نہ کیا گیاتواس کے نتائج آئندہ قومی انتخابات میں حکومت کے لیے بھیانک ہوسکتے ہیں۔

مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے ، جمہوری دینی سیاسی جماعت ہے ، وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کے آئین وقانون کے وفادار ہیں، اس لیے ان پر پابندی کا فیصلہ بلاتاخیر واپس لیا جائے۔

مفتی منیب الرحمان اور دیگر علماء  کا کہناتھا کہ ہم خطبائے کرام سے اپیل کرتے ہیں کہ جمعة المبارک کے خطابات میں شہدائے ناموسِ رسالت کی بلندیِ درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کریں،تحریک لبیک کے ستم رسیدہ گرفتارکارکنان کی رہائی کے لیے دعا کریں اور اْن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں ، ان کے جذبات کو حوصلہ دیں اور ٹھنڈا رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے ، اس کا امن اور سلامتی ہم سب کو عزیز ہے، کسی بھی احتجاج میں سرکاری اور نجی املاک کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے ، یہ فعل شرعاً جائز نہیں ہے، حکمران دوسروں پر فتوے صادر کرنے سے پہلے اپنے ماضی کے کردار اور ایسے ہی باغیانہ اقوال وافعال کا جائزہ لیں، کیا کبھی انہوں نے خود اعترافِ جرم کر کے اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کیا ہے، کیا قانون صرف کمزور کے لیے ہوتا ہے ، طاقتور اور صاحبِ اقتدارقانون سے بالاتر ہوتے ہیں۔

دوسری جانب مفتی منیب الرحمن نے کہاکہ ہمارے میڈیا پر را، موساد، سی آئی اے، ایم آئی سکس، خاد، کے جی بی، ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم ہرطرح کے اداروں کانام آسکتا ہے، لیکن تحریک لبیک پاکستان کا نام لینا یا اسکرین پر لکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس لیے ایک مذہبی تنظیم لکھا جاتا ہے، یہ ہمارا آزاد میڈیا ہے، ظاہر ہے اس میں غیبی ہدایات اور دینی طبقات کے ساتھ ان لبرل اداروں کی اپنی عصبیتیں اورنفرتیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  ماضی قریب میں چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بیس تیس افراد نے دھرنا دے کر کسی شاہراہ کو بلاک کردیا اور سیکورٹی کے اداروں نے اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے اس ناکہ بندی کو تقویت دی، تب نہ قومی اور ملکی مفاد مجروح ہوا، نہ ایمبولینسوں کی دہائی دی گئی، نہ یہ کہا گیا کہ لوگوں کے لیے مشکلات پیش آرہی ہیں، اس سے ریاست وحکومت اور میڈیا کی عصبیت کا ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے۔

مفتی منیب الرحمن کا مزید کہنا ہے کہ  اگر حکومت حالات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے تو تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ حافظ سعد حسین رضوی اوران کی شوریٰ کے ارکان کو رہاکرے تاکہ وہ اپنی شوریٰ کی مشاورت سے حالات کو کنٹرول کریں، نیز ہم ان کی رہائی کے بعد ان سے اپیل کریں گے کہ زیرِ تصفیہ معاملات کو عیدالفطر کے بعد تک موخر کریں اور تمام اسیر کارکنان کو فوری رہا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو ریاستِ مدینہ قرار دینے والے وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ تاجدارِ ریاستِ مدینہ سیدنا محمد رسول اللہ  کی سنتِ جلیلہ پر عمل کرتے ہوئے عفوِ عام کا اعلان کریں اور تمام گرفتار شدگان کی فوری  رہائی کے احکام صادر کریں تاکہ آپ کے قول وفعل میں مطابقت نظر آئے۔