پرتشدد احتجاج اور اس کے مضمرات

285

وفاقی کابینہ نے امن وامان کی صورت حال کے پیش نظر لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ لاہور، راولپنڈی، ملتان، گجرات، بہاولپور، منڈی بہا الدین، جہلم اور بہاولنگر میں نیم فوجی دستے طلب کرلیے گئے ہیں۔ دوسری طرف تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد حسن رضوی کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں ہونے والا احتجاج دوسرے روز بھی جاری رہا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، اور راولپنڈی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں معمولات زندگی اور ذرائع آمد ورفت بری طرح متاثر ہوئے، پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے ہیں۔ وفاقی کابینہ سمیت اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر امن وامان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا، وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت تحریک لبیک کے ساتھ مسلسل مذاکرات کررہی تھی، لیکن یہ لوگ ایک طرف تو مذاکرات تو دوسری طرف مارچ کی تیاری بھی کررہے تھے، اس مارچ کی آڑ میں شرپسند عناصر کے فائدہ اٹھانے کی اطلاعات بھی تھیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس کے ساتھ انہوں سے امید ظاہر کی کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ 2020ء میں فرانس کی حکومت کی سرپرستی میں خاتم الانبیا، محسن انسانیت، سیدنا محمد مصطفیؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی تھی جس کے خلاف پوری مسلم دنیا میں سخت اور شدید ردعمل ہوا تھا۔ یہ ردعمل آج بھی موجود ہے۔ مسلم حکمرانوں کی کمزوری کی وجہ سے فرانس کی حکومت پر اس ردعمل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی سلسلے میں تحریک لبیک نے اپنے مرحوم قائد مولانا خادم حسین رضوی کی رہنمائی میں راولپنڈی، اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ جسے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔ تحریک لبیک کا مطالبہ یہ تھا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ہٹ دھرمی کا کم از کم جواب یہ ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کردیا جائے۔ اس بارے میں طے کیا گیا تھا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق فیصلہ پارلیمنٹ میں کرے گی اور 3 ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں قرار داد پیش کی جائے گی اور حکومت پابند تھی کہ اس مسئلے کو 20 اپریل تک پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔ تحریک لبیک کی قیادت نے خبردار کیا تھا کہ حکومت نے وعدے کے مطابق 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کیا تو احتجاج دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔ اس بارے میں ایک ماہ سے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی دبائو کی وجہ سے حکومت اپنے کیے گئے معاہدے سے مکرنا چاہتی تھی۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو اس حساس مسئلے کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے تحریک لبیک کے سربراہ کو وقت سے پہلے گرفتار کرکے غیر ضروری طور پر امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیا۔ حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی اور حساسیت کا اچھی طرح علم ہے۔ رسول اکرمؐ کی شان اقدس میں توہین کے لیے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ہر قلب مومن میں ردعمل پایا جاتا ہے اور سب اس احتجاج میں شریک ہیں۔ احتجاجی حکمت عملی مختلف ہوسکتی ہے، اس سلسلے میں تحریک لبیک نے پیش قدمی کی ہے، حکومت کی بدنیتی ہے کہ اس نے تحریک لبیک کے سربراہ کو گرفتار کیا جس کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ احتجاج میں تشدد کا عنصر داخل ہونے کی ذمے داری سے حکومت بری نہیں ہوسکتی۔ جبر و استبداد اور طاقت کے استعمال سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم عمران خان سمیت حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اقوام مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں امریکا، برطانیہ اور فرانس پیش پیش ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اپنے اہم خطاب میں دنیا کو اسلامو فوبیا بالخصوص توہین رسالت پر متوجہ کیا، انہیں چاہیے کہ وہ اس کے عملی تقاضے بھی پورے کریں، سفارتی سطح پر اس فتنے کا مقابلہ کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے۔ عاشقانِ رسول سے متصادم ہونا حکومت کی غلط حکمت عملی کے ساتھ بدنیتی کا غماز بھی ہے۔ حکومت نے خود تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، معاہدے کی پابندی حکومت کا فرض ہے۔ کیا موجودہ حکمران بھی اپنے پیش رو سیاسی قائدین کی روش پر چلیں گے جو یہ کہنے میں بے باک تھے کہ معاہدے قرآن کی آیات نہیں ہیں۔ انہیں کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ معاہدوں کی پابندی کا حکم قرآن نے دیا ہے۔ معاہدہ بھی ایسے نازک اور حساس مسئلے سے متعلق ہے یعنی تحفظ ناموس رسالت اور اللہ کے دین، اس شعائر پر دشمنان اسلام کے فکری حملے جس کا منظم جواب دینا حکومت کا فرض ہے۔ وزیراعظم نے جس تشویش کا اظہار کیا ہے یعنی ایسی اطلاعات تھیں کہ احتجاج کی آڑ میں شرپسند عناصر فائدہ اٹھاسکتے ہیں تو اس کا موقع خود حکومت نے دیا ہے اور حالات خراب کرنے میں دانستہ یا نادانستہ مدد کی گئی۔