‘متنازعہ مردم شماری کے نتائج جاری کرنا سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے’

283

کراچی: جماعت اسلامی سندھ کے امیر و سابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے سندھ صوبے کی شدید مخالفت اور تحفظات کے باوجود متنازعہ مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے عمل کو سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل سراسر بددیانتی پر مبنی ہے، ملک اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے اور موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے۔

 تفصیلات کے مطابق  وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی کا کہنا  تھا کہ سندھ کی مخالفت کے باوجود متنازعہ مردم شماری کے نتائج جاری کرنا سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے جبکہ  پوری قوم شدید ذہنی کرب اور تکلیف سے گذررہی ہے لیکن موجودہ حکمران قوم کو ایک کرنے کی بجائے اس طرح کے متنازعہ فیصلوں سے مزید ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں ، سی سی آئی میں وزیراعلیٰ سندھ نے اختلافی نوٹ لکھ کر اپنا فرض ادا کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

جماعت اسلامی سندھ کے امیر کا اپنے بیان میں مزید کہناتھاکہ آئینی تقاضہ ہے کہ ملک میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کرانا لازمی ہے لیکن 2017 کی گئی مردم شماری 19سالوں کے بعد کی گئی جس پر صوبوں خاص طور پر سندھ کو شدید تحفظات تھے وفاقی حکومت نے یقین دھانی کروائی تھی کہ پانچ فیصد بلاکس کی دوبارہ مردم شماری کروائی جائے گی لیکن اب وفاق نے اپنے وعدے سے انحرافی کرتے ہوئے اسے ناممکن قراردیاہے جبکہ دوبارہ مردم شماری کروانے کیلئے ستمبر،اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

محمد حسین محنتی کا مزید کہنا  تھا کہ دوبارہ مردم شماری کروانے کیلئے ستمبر،اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے جو صرف متنازعہ مردم شماری کو تسلیم کرنے کیلئے لولی پوپ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جبکہ چھٹی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم قرار دینے سے وسائل کی منصفانہ ،اسیمبلی میں سیٹوں کی تقسیم ناممکن ہے جو کہ 1998 کی مردم شماری کے بنیاد پر تقسیم کی گئیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2017 کی مردم شماری کے موقع پر سندھ حکومت نے وفاقی شماریات کھاتے سے مردم شماری بلاکس کی تفصیلات، سیٹلائٹ نقشہ جات جس کی وجہ سے مردم شماری کے نتائج کو جان بوجھ کر متنازعہ بنایا گیا۔

جماعت اسلامی سمجھتی ہےکہ سندھ صوبے کے مجوزہ خدشات حقیقی ہیں، پنجاب میں آبادی کی شرح سندھ سے کم یعنی2.13فیصد ہونے کے باوجود اس میں 42 فیصد اضافہ دکھایا گیا ہے جبکہ سندھ میں آبادی کی شرح پنجاب سے زیادہ ہونے، دیگر صوبوں، افغانیوں کی آبادکاری کے باوجود کم آبادی دکھائی گئی ہے جو کہ سراسر دھوکہ اور فریب ہے جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔

صوبائی امیر نے پرزور مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت متنازعہ مردم شماری کے معاملے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھرپور انداز میں اٹھاکر سندھ کے جائز اور حقیقی مردم شماری کیلئے دوبارہ مردم شماری کراوائے تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ساتھ صوبائی اور وفاقی سیٹیوں کا تعین ہوسکے۔

سابق ایم این اے محمد حسین محنتی کا مزید کہنا   تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اب بھی اپنی غلطی تسلیم اور متنازعہ مردم شماری منسوخ کرکے فوری طور پر نئی مردم شماری کرائے تاکہ مسائل میں گھرا ہوا ملک مزید مشکلات سے دوچار نہ ہوسکے جبکہ اس معاملے کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا جواز نہ بنایا جائے اور فوری طور پر کراچی سمیت صوبے بھر میں عوام کے گلی محلے کے مسائل کو حل کرنے کیلیے انہیں اپنے بلدیاتی نمائندوں کو منتخب کرنے کا آئینی اور بنیادی حق دیا جائے۔