پی ڈی ایم کا مستقبل!

305

ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہوگا یا شاید پہلی بار ہوا ہوگا کہ حکومت کی مخالف جماعتوں پر مشتمل اتحاد قائم ہوا اور سات ماہ کی مختصر مدت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ختم ہونے کی طرف بڑھ گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ستمبر 2020 میں قائم ہوا اور جلد ہی تڑخنے لگا۔ لیکن 12 اپریل 2021 کو اہم ترین جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سب ہی اہم شخصیات کے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے کے بعد واضح طور پر اپنے خاتمے کی طرف بڑھ گیا ہے۔
پی ڈی ایم پاکستانی سیاست کا ایسا اتحاد تھا جسے غیر فطری اتحاد کہا جاسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی سمیت اتحاد میں شامل دیگر دس جماعتوں کی کیمسٹری آپس میں نہیں ملتی تھی۔ جے یو آئی اور اس کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے لیے تو حکومت مخالف اپوزیشن کا قیام اور اس میں رہنا مجبوری تھا مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے لیے محض سیاسی ضرورت سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن کی مجبوری یہ تھی کہ عوام نے انہیں 2018 کے انتخابات میں مسترد کرکے تمام ایوانوں ہی سے باہر کردیا ہے، انہیں ملک کی سیاست میں زندہ رہنے کے لیے حکومت نہیں تو حکومت مخالف سیاست سے جڑا رہنا ضروری ہے۔ مگر مولانا کی بدقسمتی ہے کہ وہ حکومت مخالف سیاست میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں۔
پاکستان کی جمہوریت کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں عوام کے مسترد کردہ خود ساختہ رہنما کسی نہ کسی طرح سیاست سے چمٹے اور چپکے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو سیاسی لیڈر کہلواتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ سیاست کے سوا کسی اور پیشے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ گزشہ سال ستمبر میں قائم ہوا یہ حکومت مخالف گیارہ جماعتوں پر مشتمل محض سات ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اب ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پیر کو اس اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے استعفا دینے کا اعلان کیا ہے۔ پیر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر پارٹی چیئرمین بلاول زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کو شو کاز نوٹس بھیجنے پر احتجاجاً ان کی پارٹی پی ڈی ایم کی طرف سے دیے گئے تمام عہدوں سے مستعفی ہوگئی ہے۔ اگرچہ یہ صورتحال اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہی ہے کہ حکومت مخالف اتحاد حکومت کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر خود بڑے خسارے کا شکار ہوچکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی شکستہ صورتحال سے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو یقینا حوصلہ ملا ہوگا۔ ساتھ ہی پی ڈی ایم کی دوسری بڑی اور اہم اتحادی پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست جس کا اصل سہرا پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنہیں اپنے مستقبل کے بارے میں اطمینان بھی ہوا ہوگا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بہت چالاکی کے ساتھ مسلم لیگ نواز کو حزب اختلاف کی سیاست میں بھی پیچھے دھکیل کر خود ایک قدم آگے بڑھ گئی اور یقینا ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب پہنچ گئی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم کے عہدوں سے مستعفی ہونے پر مولانا فضل الرحمن کی بے بسی یہ بھی نظر آرہی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے اس عمل پر اس کی کھل کر مخالفت بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ خیال ہے کہ مولانا کو اب بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے اور اپنی پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے روشنی کی کرن نظر آرہی ہوگی جیسے کہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں عورت کی حکمرانی اسلام میں ممنوع ہونے کے باوجود انہیں نظر آئی تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف اس سیاست میں اصل نقصان پاکستان مسلم لیگ نون کو پہنچ رہا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں پی ڈی ایم کا دوبارہ مستحکم کرنے کی ذمے داری مسلم لیگ ن کے لیے بڑا چیلنج بھی ہے کیونکہ پی ڈی ایم اب قائم نہیں رہ سکی تو تحریک انصاف کی حکومت اپنے مخالفین سے بہت زیادہ طاقت حاصل کرکے اپنا رواں حکومتی دور کامیابی سے مکمل کرکے آئندہ کے جمہوری حکومت کے لیے بھی تیار ہوجائے گی۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں تحریک انصاف پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بناکر حکومت سازی کے کھیل میں شامل ہوجائے۔ پی ڈی ایم کے حالات سے اگرچہ اس کی بنیادی بانی پارٹی جمعیت علمائے اسلام ف کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے مگر اس کے رہنما مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے یہ موقف اختیار کرکے کہ ’’پیپلز پارٹی نے آج سیاسی خودکشی کرلی، ہم اْن کے جانے پر خوش ہیں‘‘۔ اپنے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کم از کم ان کی جماعت کے کارکنوں کو حوصلہ مل سکے۔ بہرحال پی ڈی ایم کے تازہ حالات اب اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی ناکامی حکومت مخالف گیارہ جماعتوں کی ناکامی کہلائے گی۔